بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کا نام والد تبدیل کرسکتا ہے


سوال

بچے کے پیدا ہونے کے ایک دن بعد بغیر کسی عذرکےشوہر سے ناراض ہوکر گھر چلی گئی اور وہاں اب تک رہائش پذیر ہے، بچے کا نام نانی نے رکھا ہے جو کہ شوہر اور شوہر کے گھر والوں کے پسند کے خلاف ہے تو شوہر (بچے کا باپ) اپنے بچے   کا نام (ابرار جمیل) رکھ کر برتھ سرٹیفکیٹ بناسکتا ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ نومولود بچے کا نام رکھنے کا حق والد کا ہے، اسے اختیار ہے کہ نام خود رکھے یا اپنا اختیار کسی کو دے دے،  تاہم اگر بچے کے دادا ، دادی ، نانا ، نانی یا کوئی اور نام تجویز کریں اور اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو  تو آداب اور اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی خوش نودی  کی خاطر اپنی رائے چھوڑدی جائے، اس معاملہ میں والدین کی  ناراضی مول لینا صحیح نہیں،  ہاں پیار محبت سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کرنا منع نہیں ہے، اور یہ نافرمانی میں شمار نہیں ہوگا۔ 

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں چوں کہ بچے کےوالد کی رضامندی کے بغیر اس کا نام رکھا گیا ہے؛ اس لیے والد اگر اپنے بیٹے کا نام تبدیل  کرواکے لکھوانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔

الموسوعۃ الفقیہ الکویتۃمیں ہے:

" ذكر ابن عرفة ‌أن ‌مقتضى ‌القواعد وجوب التسمية، ومما لا نزاع فيه أن الأب أولى بها من الأم، فإن اختلف الأبوان في التسمية فيقدم الأب. "

(‌‌أحكام التسمية، تسمية المولود، وقت التسمية،٣٢٨/١١،ط : وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144501102302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں