بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

click pay earn ویب سائیٹ میں ایڈ پر کلک کرکے پیسے کمانا


سوال

یہ مسئلہ پہلے بھی دارالافتاء سے معلوم کیا گیا، اس میں عدمِ جواز کا جواب آیا، لیکن ہمارے شہر کے کچھ مفتیانِ کرام اس کو جائز قرار دیتے ہیں، برائے کرم ناجائز ہونے کی وجوہات کے بارے میں بھی بتائیں؟ ایک شخص نے ایک ویب سائیٹ بنائی ہے click pay earn کے نام سے جس میں روزانہ کے اعتبار سے ایڈس دیکھنے پڑتے ہیں، اور ان کو دیکھنے کے لیے پیکیجز کرنے پڑتے ہیں اور پیکیجز دس ہزار سے ایک لاکھ تک ہیں، مثلاً اگر ہم دس ہزار والا پیکیج کرتے ہیں تو اس کے بینک اکاؤنٹ میں ہمیں دس ہزار بھیجنے ہیں، پھر روز چالیس ایڈس اس ویب سائیٹ پر ہمیں دیکھنے  ہیں تو اس کے عوض ہمیں چار سو روپے ملیں گے، اگر ایڈ  چالیس سے کم دیکھے تو بھی اس حساب سے پیسے ملیں گے اور  یہ ہر پیکیج تین ماہ تک چلے گا اس کے بعد پھر نیا پیکیج کرنا پڑے گا۔

اور جو ایڈس دکھائے جاتے ہیں  اس میں معروف علماءِ کرام کے بیانات ہوتے ہیں اور اگر کوئی کسی اور کو اس ویب سائیٹ میں ایڈ کرتا ہے تو جسے ایڈ کیا ہے جب وہ چالیس ایڈس دیکھے گا تو ایڈ کرنے والے کے اکاؤنٹ میں ستر روپے جمع ہوں گے۔

کیا یہ صورت جائز ہے ہم یہ پیکیج کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

         اس طریقہ کار پر کام کرکے پیسہ کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1۔۔ اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

 2۔۔ جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں؛ لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3۔۔ ان اشتہارات میں بسا اوقات  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

4۔  نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔حدیث شریف میں ہے:

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

شامی(6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.

وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة. ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ...  ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں