بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلیئرنگ فارورڈنگ کا حکم


سوال

کسٹم کاجوکاروبارہے، کیا یہ حلال ہے یا حرام؟

جواب

سوال کا مقصد اگر کلیئرنگ فارورڈنگ کے شعبہ سے وابستگی اور اس کی حلت و حرمت کے بارے میں دریافت کرنا ہے،  تو مذکورہ شعبہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ پورٹ سے مال چھڑانے کی خدمات پر نمائندہ طے شدہ اجرت لے سکتا ہے، اور یہ اجرت اس کے لیے حلال ہوگی، بشرطیکہ  مال چھڑانے کے  لیے غیر قانونی و غیر شرعی طریقہ  اختیار نہ کیا جائے، جیسے حکومت کی جانب سے مقرر شدہ  ڈیوٹی کم کرانے  کے لیے رشوت دینا، اس  لیے کہ  رشوت دینا اور لینا حرام ہے، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے رشوت دینے، لینے اور اس میں معاونت فراہم کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص کسٹم میں یا پورٹ میں ہی ملازم ہے، اور اس کی مفوضہ ذمہ داریوں میں سے ہی یہ کام ہے اس کے لیے اپنی ملازمت کی ذمہ داری پوری کرنے پر اضافی رقم لینا بھی رشوت کے زمرے میں داخل ہوکر جائز نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سرکار کی طرف سے مال برآمد کرنے پر جو ڈیوٹی مقرر کی گئی ہے، اس میں رشوت دے کر، اس میں کمی کروانا شرعاً و قانوناً ممنوع ہے، جس سے اجتناب شرعا ضروری ہے،     البتہ اگر کسٹم حکام کی جانب سے سرکاری ڈیوٹی کے علاوہ کسی قسم کا ٹیکس ظلمًا لگایا جائے، تو اس  صورت میں  اپنے کلائنٹ  کو ظلم سے  بچانے اور اپنے کلائنٹ کے  جائز حق   کے حصول کی غرض سے کچھ رقم ادا کرنا مجبوری ہو تو اس صورت میں دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ لینے والا گناہ گار ہوگا، پس مجبوری کے بغیر رشوت دے کر ڈیوٹی کم کرانے پر اجرت لینا حلال نہ ہوگا، اسی طرح سے حرام پروڈکٹ کلیئر کرانے پر اجرت لینا  بھی حلال نہ ہوگا۔

نوٹ: سائل کے سوال کا مقصد اگر کچھ اور ہو تو، مقصد کی وضاحت کے ساتھ سوال دوبارہ ارسال کردیا جائے۔

شرح مشكل الآثار للطحاوي میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لعنة الله على الراشي والمرتشي."

(باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من لعنه الرائش، أو الراشي مع لعنه الراشي والمرتشي، ١٤ / ٣٣٤، رقم الحديث: ٥٦٥٧، ط: مؤسسة الرسالة)

شعب الايمان للبيقهي میں ہے:

"عن ثوبان قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش، قال: " الذي يعمل بينهما، وإن هذا الفيء لا يحل منه خيط ولا مخيط، لا آخذ ولا معطي، وإن المختلعات هن المنافقات، وما من امرأة تسأل زوجها الطلاق من غير بأس فتجد ريح - أو قال: رائحة - الجنة."

( قبض اليد عن الأموال المحرمة، ويدخل فيه تحريم السرقة، وقطع الطريق، ٧ / ٣٥٤، رقم الحديث: ٥١١٥، ط: مكتبة الرشد)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وَفِي شَرْحِ الْجَوَاهِرِ: تَجِبُ إطَاعَتُهُ فِيمَا أَبَاحَهُ الشَّرْعُ، وَهُوَ مَا يَعُودُ نَفْعُهُ عَلَى الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَصُّوا فِي الْجِهَادِ عَلَى امْتِثَالِ أَمْرِهِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ."

(كتاب الاشربة، ٦ / ٤٦٠، ط: دار الفكر)

احكام القرآن لظفر احمد عثماني میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي امر الناس بطاعة اولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لا يخالف الشرع، النساء: ٥٩، ٢ / ٢٩١ - ٢٩٢، ط: ادارة القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: يُعَزَّرُ) لِأَنَّ طَاعَةَ أَمْرِ السُّلْطَانِ بِمُبَاحٍ وَاجِبَةٌ."

(كتاب البيوع، باب المراحبة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ٥ / ١٦٧، ط: دار الفكر)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

" قَالَ الشُّرَّاحُ: لَايُقَالُ: لَانُسَلِّمُ جَوَازَ دَفْعِ الرَّشْوَةِ لِدَفْعِ الظُّلْمِ؛ لِأَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ» عَامٌّ. لِأَنَّا نَقُولُ: هَذَا الْحَدِيثُ مَحْمُولٌ عَلَى مَا إِذَا كَانَ عَلَى صَاحِبِ الْحَقِّ ضَرَرٌ مَحْضٌ فِي أَمْرٍ غَيْرِ مَشْرُوعٍ، كَمَا إِذَا دَفَعَ الرَّشْوَةَ حَتَّى أَخْرَجَ الْوَالِي أَحَدَ الْوَرَثَةِ عَنِ الْإِرْثِ، وَأَمَّا إِذَا دَفَعَ الرَّشْوَةَ لِدَفْعِ الضَّرَرِ عَنْ نَفْسِهِ فَجَائِزٌ لِلدَّافِعِ، انْتَهَى."

( كتاب الصلح ، ٨ / ٤٠٩، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ لِدَفْعِ الْجَوْرِ عَنْ نَفْسِهِ أَوْ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ لَمْ يَأْثَمْ."

(كتاب الهبة، الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي الْمُتَفَرِّقَاتِ، ٤ / ٤٠٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں