بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ ٹیم میں بعض کی طرف سے جوا لگانے کی صورت میں دیگر کھلاڑیوں کے لیے کھیلنے کا حکم


سوال

ہم کرکٹ کھیلتے ہیں۔کچھ لوگ کھیل پر جوا لگا لیتےہیں۔ لیکن ہم لوگ صرف میچ کھیلتے ہیں اور جوئے کے پیسے نہیں لیتےہیں۔ ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میچ میں اگر شرط دوطرفہ ہو تو ایسی شرط لگانا جائز نہیں ہوتا اور یہ شرعاً "جوا" کہلاتاہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  کھیل میں دونوں ٹیموں کے  بعض کھلاڑیوں  کی طرف سے جوا لگایاجائےتو ایسی صورت میں اس میچ میں شریک ہوکر کھیلنا جائز نہیں اگرچہ جوا کے پیسے نہ لیں، کیونکہ جوا شریعت میں حرام ہے اور حرام کام میں معاونت جائز نہیں، لہذا ایسے میچ میں  نہ کھیلے۔

البتہ شرط اگر ایک  طرف سے لگائی جائے یا کسی (اور) تیسرے شخص کی جانب سے لگائی گئی ہو تو ایسی شرط لگانا درست ہوتا ہے،  یہ شرعاً "جوا" کے حکم میں نہیں آئےگا۔تاہم اگر  کرکٹ (کھیل ) میں مشغول ہو کر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً مردوں اور عورتوں کا اختلاط ، موسیقی اور جوا وغیرہ  یا تصویر سازی ہو  یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو یہ جائز نہیں ہے۔

         البتہ  اگر اس میں مذکورہ خرابیاں نہ پائی جائیں، بلکہ ستر پوشی کے ساتھ کھیلاجائے ، اسے بدن کی ورزش ، صحت اور تن درستی باقی رکھنے کے لیے یا کم از کم طبعیت کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کھیلا جائے، اور اس میں غلو نہ کیا جائے،  اسی کو مشغلہ نہ  بنایا جائے،  اور ضروری کاموں میں اس سے حرج نہ پڑے تو پھر جسمانی ورزش کی حد تک  کرکٹ کھیلنے کی گنجائش ہوگی۔

قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ." (المائدة، 2)

ترجمہ:" اور ایک دوسرے کی نیک کام اور پرہیزگاری میں مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی پر مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، بیشک اللہ کا سخت عذاب ہے"

اسی سورت میں دوسری جگہ اللہ رب العزت جوئے کی ممانعت سے متعلق فرماتے ہیں:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" (المائدة، 90)

ترجمہ: " اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بُت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو اس سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو"

'احکام القرآن للجصاص' میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه."

(سورة البقرة،‌‌باب تحريم الميسر، ج: 1، ص: 398، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(شامي، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: سعید)

المحیط البرہانی میں ہے :

"فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام.

وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.

وإن شرطوا الجعل من أحد الجانبين، وصورته: أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك، فهذا جائز استحساناً، والقياس أن لا يجوز."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، ‌‌الفصل السابع في المسابقة، ج: 6، ص: 54، ط: المكتبة الغفارية)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(كتاب الشعر، باب تحريم اللعب بالنرد شير، قبيل كتاب الرؤيا، ج: 4، ص: 258، ط: دار القلم ۔دمشق۔)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں