بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سگریٹ کینسر کا باعث ہے ،پھر بھی حرام کیوں نہیں؟


سوال

عرب علماء سگریٹ کے کاروبار کو حرام بولتے ہیں،  کیوں  کہ سگریٹ  صحت کے لیے اچھی نہیں ہے، کینسر کا باعث ہے  جب کہ  دیوبندی علماء مکروہِ  تنزیہی بولتے  ہیں ،کیا آپ وضاحت کریں گے  کہ یہ تنزیہی کیوں ہے؟

جواب

واضح رہےکہ  اشیاء  میں اصل مباح ہونا ہے،  جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"﴿هُوَ الَّذِي ‌خَلَقَ ‌لَكُمْ ‌مَا ‌فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾."[البقرة: 29] 

ترجمہ:"وہ ذاتِ پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیاتمہارے فائدہ کے لیے جو کچھ زمین میں موجود ہے سب کا سب."

  چناں چہ اس آیت کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، جب تک کہ کوئی صریح آیت یا حدیث کسی چیز کی حرمت کو بیان نہ کرے اور ایسی اشیاء جن کا ذکر قران و حدیث میں نہیں ان میں حرمت کے اسباب دیکھے جاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ زمین سے پیدا ہونے والی تمام اشیاء میں اصل مباح ہونا ہے،سوائے ایسی چیزوں کہ جو نجس ،نشہ آور یا زہرِ قاتل ہو  ں  اور یہ بات متفقہ ہے کہ سگریٹ نجس نہیں،اسی طرح نشہ آور  بھی نہیں ،البتہ حِدت (تیزی) ہے ،جیسا کہ مرچ میں بھی ایک قسم کی تیزی ہےاور بیماری ہونا یا بیماری میں اضافہ ہونا حرمت کی دلیل نہیں ہے، چناں چہ بلڈ پریشر کے مریض کے لیےنمک،شوگر کے مریض کے لیے چینی کو کوئی بھی حرام نہیں کہتا ، تاہم بدبو اور فرشتوں کو تکلیف  ہونے   کی وجہ سے اسے مکروہ تنزیہی قرار دیا گیا ہے۔

الفقہ الإسلامي وأدلتہ للزحيلی:

"أما‌‌ النبات المأكول: فكله حلال إلا النجس والضار والمسكر. أما النجس أو ما خالطته نجاسة (المتنجس)، فلا يؤكل، لقوله تعالى: {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف:157/ 7] والنجس: خبيث.....وأما المسكر: فحرام لقوله تعالى فيه {رجس من عمل الشيطان، فاجتنبوه لعلكم تفلحون} [المائدة:90/ 5]،وأما الضار: فلا يحل أكله، كالسم والمخاط والمني والتراب والحجر، لقوله تعالى: {ولا تقتلوا أنفسكم} [النساء:29/ 4] وقوله تعالى: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة} [البقرة:195/ 2] وأكل هذه الأشياء تهلكة، فوجب ألا تحل."

(‌‌القسم الأول،‌‌الباب السابع: الحظر والإباحة،‌‌المبحث الأول،‌‌المطلب الأول،النبات المأكول،ج4،ص2592،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وألف في حله أيضاً سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي."

( کتاب الأشربة،ج:6،ص:459 ط:ایچ ایم سعید) 

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے۔‘‘

( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص: 552، ط: ادراہ صدائے دیوبند) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں