بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سگریٹ کمپنی میں کام کرے کا حکم


سوال

 سیگریٹ کمپنی میں کام کرنا حلال ہے یا حرام ؟

جواب

سگریٹ   کی تجارت کرنا یا سگریٹ کمپنی میں کام کرنے جائز ہے البتہ بہتر نہیں ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے اور اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے"۔

(کتاب الحظر و الاباحۃ، آٹھواں باب: تمباکو کا استعمال، 9 / 148، ط:دار الاشاعت)

الدر المختار میں ہے:

"ثم قال شيخنا النجم: والتتن الذي حدث وكان حدوثه بدمشق في سنة خمسة عشر بعد الألف يدعي شاربه أنه لا يسكر وإن سلم له فإنه مفتروهو حرام".

ترجمہ: پھر کہا ہمارے استاذ نجم رحمہ اللہ نے کہاکہ تنباکو جو نوپیدائش ہے اور اس کی پیدائش دمشق شام میں ایک ہزار پندرہ سال ہجری میں ہوئی،  اس کا پینے والا یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نشہ نہیں کرتا، اگر اس کے عدمِ سکر کو مان لیجیے تو البتہ وہ مفتر ہے، یعنی اگرچہ عقل کو زائل نہیں کرتا، مگر حواس کو منکسر اور ضعیف کرتا ہے اور جو چیز مفتر ہے وہ حرام ہے۔

(غایۃ الاوطار ترجمۂ اردو درِ مختار 4/ 298، ط:سعید)

وفي الرد:

"(قوله والتتن إلخ) أقول: قد اضطربت آراء العلماء فيه، فبعضهم قال بكراهته، وبعضهم قال بحرمته، وبعضهم بإباحته، وأفردوه بالتأليف. وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ويمنع من بيع الدخان وشربه وشاربه في الصوم لا شك يفطر...قلت: وألف في حله أيضا سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها (الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان) وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان...وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره، بل ثبت له منافع، فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة...فالذي ينبغي للإنسان إذا سئل عنه سواء كان ممن يتعاطاه أو لا كهذا العبد الضعيف وجميع من في بيته أن يقول هو مباح، لكن رائحته تستكرهها الطباع؛ فهو مكروه طبعا لا شرعا إلى آخر ما أطال به - رحمه الله تعالى -".

(كتاب الأشربة، 6/ 459،  ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں