زید دماغی بیماری ( شیزوفرینیا ) کا مریض ہے اور دوائی نہیں لیتا علاج کے معاملے میں اکثر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا رہتا ہے ۔اور کبھی کبھار غصے میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اسے نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔ اسی عرصے کے دوران ایک بار خودکشی کی کوشش کر چکا ہے۔ اور 2 بار نفسیاتی ہسپتال میں داخل رہ چکا ہے ۔ اسی درمیان زید نےجھگڑے کے دوران اپنی زوجہ کو طلاق دیدی ہے اور بعد میں بتانے پر پوچھتا ہے کب دی ہے مطلب اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہیجانی کیفیت میں وہ کیا کرتا ہے ڈاکٹر اس لمحے کو ( paranyoid phycosis ) بتاتے ہیں آپ شرعی رہنمائی فرمادیجیے آیا طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟
یہ با ت واضح رہے کہ کسی کو ایسی بیماری لاحق ہوجائے جس کی وجہ سے اس کی عقل زائل ہوجائے اور اس کو پتا نہیں چلتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور بعد میں بھی بتانے پر اس کو یاد نہ ہو کہ اس نے کیا کہا تھا تو اس بیماری کی حالت میں اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہوگی لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مریض نے ایسی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دی ہوجس میں اس کے حواس معطل ہو اور اس کو یہ پتہ نہ چلتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور بعد میں لوگوں کے بتلانے پر بھی اس کو یاد نہ ہو کہ اس نے کیا کہا تھا تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله والمجنون) قال في التلويح: الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثاره وتتعطل أفعالها، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة، وإما لاستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا. اهـ. وفي البحر عن الخانية: رجل عرف أنه كان مجنونا فقالت له امرأته: طلقتني البارحة فقال: أصابني الجنون ولا يعرف ذلك إلا بقوله كان القول قوله."
(کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمه، ج:3، ص:243، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)
المحیط البرھانی میں ہے:
"ولو شرب النبيذ ولم يذهب عقله منه ولكن لم يوافقه فصدع منه فزال عقله بالصداع دون الشرب لم يقع طلاقه"
(کتاب الطلاق، الفصل الثالث فی بیان من یقع طلاقه و من لایقع طلاقہ، ج:3، ص:207، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فمنها أن يكون عاقلا حقيقة أو تقديرا فلا يقع طلاق المجنون والصبي الذي لا يعقل لأن العقل شرط أهلية التصرف لأن به يعرف كون التصرف مصلحة وهذه التصرفات ما شرعت إلا لمصالحالعباد."
"ومنها أن لا يكون معتوها ولا مدهوشا ولا مبرسما ولا مغميا عليه ولا نائما فلا يقع طلاق هؤلاء لما قلنا في المجنون وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «كل طلاق جائز إلا طلاق الصبي والمعتوه"
(کتاب الطلاق، فصل فی شرائط رکن الطلاق و بعضہا یرجع الی الزوج، ج:3، ص:99 و 100، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخانية: رجل عرف أنه كان مجنونا فقالت له امرأته طلقتني البارحة، فقال أصابني الجنون ولا يعرف ذلك إلا بقوله كان القول قوله: ثم قال رجل طلق امرأته وهو صاحب برسم فلما صح قال قد طلقت امرأتي ثم قال إني كنت أظن أن الطلاق في تلك الحالة لا يقع كان واقعا قال مشايخنا - رحمهم الله تعالى -: حينما أقر بالطلاق إن رده إلى حالة البرسام بأن قال قد طلقت امرأتي حالة البرسام فالطلاق غير واقع، وإن لم يرده إلى حالة البرسام فهو مأخوذ بذلك قضاء، وقال الفقيه أبو الليث: هذا إذا لم يكن إقراره بذلك في حالة مذاكرة الطلاق."
(کتاب الطلاق،ج:3، ص:268، ط:دار الکتاب الإسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102356
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن