بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

چھ تولے سونے پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں ایک اسکول ٹیچر ہوں میری بیوی کے پاس ذاتی استعمال کیلۓ چھ تولہ سونا ہے جبکہ چاندی نہیں ہے، گھر میں استعمال اور غیر استعمال کے کچھ برتن ہیں۔ موصوفہ گھر میں بچوں کو قرآن پڑھاتی ہے جس کا اسے ماہانہ پانچ ہزار روپے ملتے ہیں۔ جو ذاتی ضرورت پر خرچ ہوتے ہیں۔ سال گزرنےکےبعد ان کے پاس نقدی نہیں ہوتی۔پوچھنایہ تھاکہ آیا ان پر اس سونے کی زکوة ہوگی یا نہیں؟ ۔

جواب

سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے، یعنی اگر کسی کے پاس صرف سونا ہے، اس کے علاوہ مال نہیں ہے تو اس پر زکوۃ اس وقت لازم ہو گی جب سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہو ، صرف چھ تولہ سونا ہونے کی صورت میں اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔  اور اگر کسی کے پاس سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہے، لیکن اس کے پاس سونے کے علاوہ کچھ چاندی یا کیش یا مالِ تجارت ہو اور ان مختلف چیزوں کی کل مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتی ہو  تو  سال پورا ہونے پر اس کے اوپر زکوۃ لازم ہو گی۔  نیزضرورت کے برتنوں میں کوئی خاص عدد مقرر نہیں، لیکن جو سامان  سال بھراستعمال میں نہیں آتا وہ ضرورت سے زائد شمار ہوگا۔ اور جو سال میں کسی موقع پر استعمال ہوتا ہو وہ ضرورت میں داخل ہے خواہ کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہو۔باقی ان زائد اشیاء (برتن وغیرہ) پر زکوۃ  و اجب نہیں ہوگی ،کیوں کہ زکوۃ کے وجوب کے لیے مال کا نامی (بڑھنے والا) ہونا ضروری ہے، اور مالِ نامی سے مراد سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت اور سائمہ جانور ہیں۔ البتہ اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد اتنا سامان (برتن وغیرہ) ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو اس کے لیے زکوۃ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ لہذا مذکورہ تفصیل کی روسے سائل کی بیوی کے پاس سال گزرنے پر کوئی نقدی،چاندی وغیرہ نہ ہو تو مذکورہ سونےکی زکوۃواجب نہیں ہوگی،اوراگر سال گزرنے پر کوئی نقدی ،چاندی وغیرہ موجود ہواوران کی مجموعی قیمت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس صورت میں مجموعی قیمت پرزکوۃ واجب ہوگی۔

الدر المختار میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)۔۔۔۔۔۔۔ (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد."

(كتاب الزكوة :ج:2،ص:261،ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة)."

(كتاب الزكوة،باب زکاۃ المال، ج:2،ص:295،ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما شروط وجوبها۔۔۔۔۔(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه۔۔۔۔۔ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة۔۔۔۔۔(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة، وكذا طعام أهله وما يتجمل به من الأواني إذا لم يكن من الذهب والفضة، وكذا الجوهر واللؤلؤ والياقوت والبلخش والزمرد ونحوها إذا لم يكن للتجارة." 

‌‌(كتاب الزكاة ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج:1، ص:171 ، 172 ، ط :دارالفکر بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله يجب في مائتي درهم وعشرين مثقالا ربع العشر) ، وهو خمسة دراهم في المائتين، ونصف مثقال في العشرين۔۔۔۔۔قيد بالنصاب؛ لأن ما دونه لا زكاة فيه."

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،ج:2،ص:243/242،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز. حتى لو ملك مائة درهم خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكاة عنده خلافا لهما، ولو ملك مائة درهم وعشرة دنانير أو مائة وخمسين درهما وخمسة دنانير أو خمسة عشر دينارا أو خمسين درهما تضم إجماعا كذا في الكافي. ولو كان له مائة درهم وعشر دنانير قيمتها أقل من مائة درهم تجب الزكاة عندهما وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - اختلفوا فيه والصحيح أنه تجب كذا في محيط السرخسي."

‌‌(كتاب الزكاة ،الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض،ج:1،ص:179،ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں