اب مضافات میں مختلف گاؤں میں پڑھی جانے والی جمعہ کی نماز کو مد ِ نظر رکھ کر اہل گاؤں یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا ہمارے گاؤں میں نماز ِ جمعہ اداکی جاسکتی ہے یانہیں؟
واضح رہے کہ جمعہ کے قیام کے لیے شہر /قصبہ /قریہ کبیرہ کا ہو نا شرط ہے جس کی مجموعی آبادی کم ازکم اڑھائی تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں روز مرہ کی ضروریات کی تمام چیزیں ملتی ہوں ، علاج معالجہ کی سہولت میسر ہو ،ڈاک خانہ وغیرہ موجود ہو،مظلوم کو انصاف دلانے،پیش آمدہ مقدمات کو نمٹانے کیلیے قاضی مقرر ہو،تو ایسی جگہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز ہےاور جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ پائی جائیں وہاں جمعہ كي نماز کا قیام جائز نہیں ۔
مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورت ِ مسئولہ میں ذکر کردہ گاؤں میں مذکورہ بالا شرائط نہیں پائی جارہی ہیں ؛ کیوں کہ مذکورہ گاؤں کی آبادی اڑھائی تین ہزار سے کم ہے،گاؤں میں علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں ہے،نیز ڈاک خانہ وغیرہ بھی موجود نہیں ہے؛لہذا جب تک مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز کے قیام کی مذکورہ بالا شرائط نہ پائی جائیں تو اس وقت تک گاؤں والوں کے لیے مضافات میں مختلف گاؤں میں پڑھی جانے والی جمعہ کی نماز کو بنياد بنا کر اپنے گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ؛ کیوں کہ هر ايك گاؤں موضع مستقل ہے،بلکہ ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا لازم ہے ۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 259):
"و لنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ و لأن الظهر فريضة فلايترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 138):
"و عبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات."
بدائع الصنائع میں ہے:
"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح".
(ج: 2، ص: 260، ط: سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و تقع فرضًا في القصبات و القرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة".
(ج: 1، ص: 537، ط: سعيد)
وفيه أيضًا:
"لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات."
(ج: 2، ص: 138، ط: سعيد)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
’’سوال : دو گاؤں کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ ہے اور پہلے گاؤں کی آبادی تین ہزار کی ہے اور دوسرے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں اور جمعہ ہوتا ہے۔ پہلے گاؤں اور دوسرے گاؤں میں جمعہ فرض ہے یا نہیں؟
جواب : پہلا گاؤں بڑا ہے، اس میں جمعہ فرض ہے اور دوسرا گاؤں بھی اگر ایسا ہی بڑا ہے تو وہاں بھی فرض ہے۔‘‘ (ج۵ /ص۱۰۷)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144303100237
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن