بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا باربار طلاق کے الفاظ نقل کرنا


سوال

اگر شوہر بار بار طلاق کے الفاظ  کی فہرست بیان کرے، تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟ دراصل نکاح کے بعد ہمارے خاندان کا جھگڑا ہوا جس میں میرے گھر والوں نے رخصتی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا بعد میں رخصتی ہوئی اب میرے شوہر اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ تمھارے گھر والے مجھ سے طلاق مانگتے تھے، پھر کہتے ہیں کہ تمھارے کزن مجھ سے طلاق دلوا کے خود شادی کرنا چاہتے تھے،پھر ایک دن کہا کہ تم تنگ ہو تو آزاد کرلوں، پھر کہا کہ تمھارا بھائی کہتا تھا اسے مار کے طلاق لو، پھر کہا کہ تمھارے کزن نے مجھے بتایا کہ تم طلاق مانگتی ہو۔

ان باتوں سے طلاق واقع تو نہیں ہو گی؟ میری رہنما ئی کر دیں، اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق کاوقوع تب ہوتاہے جب شوہر طلاق کے صریح یاکنایہ الفاظ استعمال کر  کے   طلاق  کو واقع کرے  ،مذکورہ الفاظ میں یا  توعورت کے خاندان والے عورت  کو طلاق دلوانا چاہتے ہیں ،یا  مرد پوچھ رہاہے کہ تمہیں آزادکردوں ؟ لیکن طلاق نہیں دی ہے ۔

لہذایہ سب  حکایت کے قبیل میں سے ہیں،ان میں سے کسی لفظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لايقع من غير إضافة إليها".

( كتاب الطلاق، باب الصريح، ٣/ ٢٧٣، ط: دار الفكر)

وفیه أیضاً:

"قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق."

(كتاب الطلاق، باب الصريح، ٣/ ٢٤٨، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

(قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق".

(كتاب الطلاق، باب الکنایات، ٣ / ٢٩٦ - ٢٩٧، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں