میں اپنے گھر میں چھوٹے بچے اور بچیوں کو نورانی قاعدہ اور قرآنِ پاک پڑھاتی ہوں اور اس پر میں کوئی معاوضہ نہیں لیتی ہوں، بلکہ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر پڑھاتی ہوں، اب پوچھنا یہ ہے کہ میں بچوں سےغیر حاضری پر ایک دن کا دس روپے لیتی ہوں اور اس لینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ غیر حاضری نہ کریں؛ کیوں کہ بغیر معاوضہ کے پڑھانے کی وجہ سے بچے بھی چھٹی کر لیتے ہیں اور گھر والے بھی زیادہ فکر نہیں کرتے؛ اس لیے ان کو پابندی کے ساتھ مدرسے بھیجنے کے لیے ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ پھر کوئی غیر حاضری نہ کریں، پابندی کے ساتھ پڑھنے کے لیے آئیں، اور ایک بات یہ بھی پوچھنی ہے کہ جن بچوں کے قرآنِ پاک ختم ہوتے ہیں تو ان کے گھر والے اپنی خوشی سے میرا کوئی مطالبہ نہیں ہوتا ان سے وہ اپنی خوشی سے کوئی تحفہ مثلًا کوئی سوٹ یا مٹھائی وغیرہ لے آتے ہیں، تو ان کا میرے لیے لینا اور استعمال کرنا کیسا ہے برائے؟
1- صورتِ مسئولہ میں آپ کا بچوں سے بطورِ جرمانہ دس روپے لینا جائز نہیں، آپ ان سے رقم نہ لیں، چھٹی پر کوئی اور سزا دیں، اور جو رقم اب تک لے چکی ہوں وہ بچوں کو واپس کردیں۔
2- صورتِ مسئولہ میں تکمیل پر بچوں کے گھر والوں کی جانب سے کچھ ہدیہ آئے تو اس کا لینا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال." (4/61)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201209
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن