بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھپ کر شادی کرلینے کی صورت میں والدین کا طلاق کا مطالبہ کرنا


سوال

ایک لڑکی نے اپنے گھر والوں کے ظلم و زیادتی سے تنگ آکر اپنا گھر چھوڑا، وہ لڑکی ایک ڈاکٹر ہے اور اچھے گھرانے سے ہے، گھر چھوڑنے کے بعد وہ مکمل پردہ میں ایک دوائیوں کی کمپنی میں سینیئر پوسٹ پر ایک جگہ بیٹھ کر کام کرتی ہے، میں نے والدین سے چھپ کر اس لڑکی سے نکاح کیا اور اس سے یہ وعدہ کیا کہ میں پڑھائی مکمل ہونے کے بعد (چارسال بعد) اپنے ماں باپ کو ہم دونوں کی شادی کے لیے راضی کرلوں گا، اگر وہ راضی نہ ہوئے تو میں اپنے ماں باپ کو چھوڑ دوں گا۔ لیکن چار سال بعد میرے ماں باپ راضی نہیں ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بات پر زور دیا کہ میں اپنی بیوی جس سے میں نے ماں باپ کی اجازت اور ان کے علم میں لائے بغیر نکاح کیا، اس کو طلاق دے دوں، ماں باپ کہتے ہیں، وہ لڑکی عزت دار نہیں ہے، اسی لیے گھر سے نکلی، مردوں میں کام کرتی ہے، اکیلی رہتی ہے، اس کے ماں باپ نے اس کو اپنے گھر واپس بھی نہیں بلایا، ضرور لڑکی ہی خراب ہے۔ میرے ماں باپ مجھ سے زبردستی میری بیوی کو طلاق دلوا رہے ہیں، اگر میں طلاق نہیں دوں تو کہہ رہے ہیں ہمیں (ماں باپ) کو چھوڑ دو۔ برائے مہربانی مجھے بتائیے میں کیا کروں؟ اگر میں ماں باپ کو چھوڑتا ہوں تو خاندان میں ان کی بے عزتی ہوگی کہ بیٹے نے ایسا کام کیا، اگر بیوی کو طلاق دیتا ہوں تو اس کا کوئی سہارہ نہیں ہوگا؟

جواب

 واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے  نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.

(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

چھپ کر نکاح مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے  کے بعد حمل ضائع کروانا ( جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا وغیرہ، اس لیے بڑوں کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھانا چاہیے اور نکاح علی الاعلان کرنا چاہیے۔

تاہم اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ  اور مذکورہ لڑکی نکاح کے وقت بالغ تھے اور  دو گواہوں کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا  تو مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہو چکا، اور اگر لڑکا لڑکی کا کفو بھی ہے تو اولیاء کو اعتراض کا نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

اب  والدین کو منانے اور اور ان کو راضی  کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے، والدین کو بھی اب راضی ہوجانا چاہیے اور نارضگیاں مٹاکر رشتوں اور تعلقات کو استوار کرلینا چاہیے۔

اور  اگر لڑکی میں کوئی شرعی خرابی نہیں ہے تو  والدین  کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں والدین کی بات  ماننا لازم نہیں ہے؛ اس لیے  کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ  بات طلاق دینا ہے، لہٰذا حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے، نیز  جس طرح  اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا، بہرصورت اگر لڑکی ٹھیک ہے، یا پہلے اس سے اگر غلطی ہوئی اور اب وہ توبہ کرکے اصلاحِ اَحوال کرچکی ہے  تو اسے طلاق نہ دیجیے، والدین کو راضی کرنے کی حتی الامکان کوشش کیجیے، پھر بھی راضی نہ ہوں تو بھی اپنی حد تک آپ ان کی فرماں برداری، حسنِ سلوک اور خدمت  میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑئیے۔

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’س … والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو اس صورتِ حال میں بیٹے کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟

ج… حدیثِ پاک کا منشا یہ ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔

          خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔‘‘ (آپ کے مسائل اور ان کا حل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں