بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوہے کے مارنے پر کتنی نیکیاں ملتی ہیں؟


سوال

کیا یہ صحیح ہے کہ چوہا مارنے پر  10 نیکیاں ملتی ہیں؟ اور اگر چھوڑ دیا جائے تو؟اورکیا  ایسا ہے رسول اللہﷺ  نے  چھوڑا  ہو؟  حدیث کی روشنی میں جواب  دیجیے!

جواب

واضح رہے کہ چوہا ایک  تکلیف دینے والا جانور ہے، لہذا اس کو مارنا جائز ہے،تاکہ ممکنہ نقصان سے بچا جاسکے، نیز نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :"پانچ موذی جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی قتل کیا جائے گا: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔"البتہ اس کو مارنے پر کتنی نیکیاں ملتی ہے، اس بارے میں کوئی روایت ہمارے علم میں نہیں ہے،  باقی نفس مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی موذی جانور کو نہ مارنے سے کوئی گناہ لازم نہیں ہوتا۔

صحیح بخاری میں ہے:

’’عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال: «خمس فواسق، يقتلن في الحرم: الفأرة، و العقرب، و الحديا، و الغراب، و الكلب العقور».‘‘

(كتاب بدء الخلق،‌‌باب: خمس من الدواب فواسق، يقتلن في الحرم،129/4، ط: دار طوق النجاة)

’’ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانچ موذی جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی قتل کیا جائے گا: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔‘‘

بدائع الصنائع   میں ہے:

"و أما غير المأكول فنوعان: نوع يكون مؤذيا طبعا مبتدئا بالأذى غالبا، و نوع لايبتدئ بالأذى غالبا، أما الذي يبتدئ بالأذى غالبا فللمحرم أن يقتله و لا شيء عليه، و ذلك نحو: الأسد، و الذئب، و النمر، و الفهد؛ لأن دفع الأذى من غير سبب موجب للأذى واجب فضلا عن الإباحة، و لهذا أباح رسول الله صلى الله عليه و سلم قتل الخمس الفواسق للمحرم في الحل و الحرم بقوله صلى الله عليه وسلم: «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل و الحرم: الحية، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور، و الغراب و روي و الحدأة» و روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «خمس يقتلهن المحل و المحرم في الحل و الحرم: الحدأة، و الغراب، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور» .

وروي عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل و الحرم: الحدأة، و الفأرة، و الغراب، و العقرب، و الكلب العقور» و علة الإباحة فيها هي الابتداء بالأذى و العدو على الناس غالبا۔۔۔الفأرة تسرق أموال الناس."

(كتاب الحج،فصل بيان أنواع الصيد،197/2، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں