بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھٹیوں میں عدالتیں بند ہونے کا شرعی حکم


سوال

 گرمیوں کی وجہ سے سرکاری طور پر تین ماہ کی چھٹیاں ہو جاتی ہیں، اور اسی وجہ سے عدالتوں میں بھی چھٹیاں ہو جاتی ہیں،  جس کی وجہ سے ہمارے قیدیوں کی رہائی لٹکی رہتی ہے، نہ کوئی جج ہوتا ہے پورے تین ماہ، اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرنے والا، پلیز اس متعلق راہنمائی فرما دیں کہ دین اور شریعت کیا کہتی ہے ؟ قرآن و سنت میں اس متعلق کیاحکم آیا ہے ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی اتنی چھٹیاں عدالتوں میں ہوتی ہوں اور طویل عرصہ تک مقدمات زیر التوا ہوں تو یہ قیدیوں کے لیے باعث اذیت اور باعث تشویش ہے، البتہ اس سلسلے میں بعض وکلاء حضرات سے معلوم کرنے سے پتہ چلا کہ معاملہ اس طرح نہیں، بلکہ ان کے  مطابق گرمیوں میں سٹی کورٹ میں ایک ماہ جون کی اور ہائی کورٹ میں دو ماہ جون جولائی کی چھٹیاں ہوتی ہیں، اور سردیوں میں 25 دسمبر سے سٹی کورٹ میں ایک ہفتے کی  اور ہائی کورٹ میں دو ہفتے کی چھٹیاں ہوتی ہیں،اور اس میں بھی ججز حضرات آدھی چھٹیاں کرسکتے ہیں اور آدھی چھٹیوں میں حاضر رہنا ضروری ہوتا ہے،اور کسی بھی کورٹ کے سارے ججز کو بھی چھٹی نہیں ہوتی بلکہ آدھے چھٹی پر ہوتے ہیں، اور دوسرے آدھے ان کے قائم مقام ہوتے ہوئے  اپنا اور چھٹی والے ججز کا کام کرتے رہتے ہیں،نیز چھٹیوں میں عائلی مقدمات (خاندانی نکاح، طلاق،خلع )  میں تھوڑی سست روی آ جاتی  ہے، بند یہ بھی نہیں ہوتے، سنے جاتے ہیں، اور چلتے رہتے ہیں، مگر فوجداری (کرمنل) مقدمات تو بلا تعطل سنے جاتے ہیں، اور چلتے رہتے ہیں،باقاعدہ تاریخ لگتی ہے، خاص طور پر قیدیوں کی رہائی تو کسی صورت نہیں لٹکی رہتی، جب کسی کی رہائی کا وقت آتا ہے تو حسب ِقانون فوراً اس کی رہائی کر دی جاتی ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں