بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرم گاہ کو چاٹنا/ اس کی وجہ سے غسل یا وضو کرنے کا حکم


سوال

1۔ کیا ہم بستری کے وقت بیوی کی شرم گاہ چاٹ سکتے ہے؟

2۔اور کیا ایسے کرنے سے غسل یا وضو کرنا ضروری ہے ؟

جواب

1۔بیوی کی شرم گاہ کوچاٹنا غیرشریفانہ ،غیرمہذب ،اور انتہائی قبیح عمل  ہے،میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرمگاہ کودیکھنابھی غیرمناسب ہے، اورنسیان کی بیماری کاسبب بنتاہے ،لہذااس سے احتراز کرنا چاہیے،حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:

"ما نظرت أو ما رأیت فرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قط."

(سنن ابن ماجه، أبواب النکاح، ص:138، ط:قدیمی)

ترجمہ:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی،یایہ فرمایاکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسترکبھی نہیں دیکھا۔‘‘

اس حدیث کے ذیل صاحب مظاہرحق علامہ قطب الدین دہلویؒ لکھتے ہیں:

’’ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے یہ الفاظ ہیں کہ :نہ توآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میراسترکبھی دیکھااورنہ کبھی میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاستردیکھا، ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہراوربیوی ایک دوسرے کاستردیکھ سکتے ہیں،  لیکن آدابِ زندگی اورشرم وحیاء کاانتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کاسترنہ دیکھیں۔‘‘

(مظاہرحق،ج، 3،ص،262،ط:دارالاشاعت کراچی)

دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"إذا أتي أحدكم أھله فليستتر ولا يتجرد تجرد العيرين."

(سنن ابن ماجه، ابواب النکاح، ص:138، ط:قدیمی کراچی)

ترجمہ : ’’جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے توپردہ کرے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو (یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)۔‘‘

مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:

’’بے شک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے، ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرم گاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے......غورکیجیے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل کیسے گواراکرسکتاہے؟‘‘

(فتاویٰ رحیمیہ،ج،10،ص،178،ط:دارالاشاعت کراچی)

2- باقی غسل اور وضو جب تک منی اور مذی نہ نکلےتب تک غسل اور وضو ضروری نہیں ،ورنہ وضو(اگر صرف مذی نکلی ہو)اور غسل(جب کہ منی نکلی ہو) لازم ہو گا۔

حاشیۃ الطحطاوي  میں ہے:

"يفترض الغسل بواحد" يحصل للإنسان "من سبعة أشياء" أولها "خروج المني" وهو ماء أبيض ثخين ينكسر الذكر بخروجه يشبه رائحة الطلع ومني المرأة رقيق أصفر "إلى ظاهر الجسد" لأنه ما لم يظهر لا حكم له "إذا انفصل عن مقره" وهو الصلب "بشهوة" وكان خروجه "من جماع" كالاحتلام ولو بأول مرة لبلوغ في الأصح وفكر ونظر وعبث بذكره - وله ذلك إن كان أعزب وبه ينجو رأسا برأس لتسكين شهوة يخشى منها لا لجلبها."

(فصل ما يوجب أي يلزم الاغتسال، ص: 96،ط: دار الكتب العلمية)

وایضافیہ:

"منها مذي.... وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما لا يحس بخروجه وهو أغلب في النساء من الرجال.ويسمى في جانب النساء قذى بفتح القاف والدال المعجمة. "و" منها "ودي" بإسكان الدال المهملة وتخفيف الياء وهو ماء أبيض كدر ثخين لا رائحة له يعقب البول وقد يسبقه أجمع العلماء على أنه لايجب الغسل بخروج المذي والودي". 

(فصل: عشرة أشياء لايغتسل، ص: 100/ 101، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) عند (مذي أو ودي) ‌بل ‌الوضوء ‌منه ‌ومن ‌البول ‌جميعا على الظاهر."

(‌‌كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:165، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں