بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چرم قربانی کے بارے میں مختلف سوالات


سوال

1- کسی بھی دینی ادارے کو قربانی کرنے والوں کی طرف سے دی جانے والی چرمِ قربانی کی حیثیت کیا ہوگی؟ یعنی وہ قربانی کرنے والے کی طرف سے ہدیہ ہوگا یا واجب صدقہ؟ فقہاءِ کرام کی تصریحات کے مطابق جب تک کھال بعینہ موجود ہے اسے مالک بھی استعمال کرسکتاہے اور ہدیہ بھی کرسکتاہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدارس وغیرہ کو دی جانے والی کھالوں کی حیثیت مالکان (قربانی کرنے والوں) کی طرف سے ہدیہ ہے۔ بہرصورت جو بھی حیثیت ہو، باحوالہ تحریر کردیجیے۔

2- ادارے کے لیے چرمہائے قربانی وصول کرکے فروخت کرنے کے بعد کیا اس کی رقم زکات کے مصارف میں لگانا ضروری ہے؟ یا اس میں کچھ تفصیل ہوگی، یعنی قربانی کرنے والا شخص تو اپنی قربانی کی کھال فروخت کرکے استعمال نہیں کرسکتا، جیساکہ وہ اپنی قربانی کا گوشت فروخت کرکے رقم سے استفادہ نہیں کرسکتا، جب کہ دوسرے شخص کو قربانی کا گوشت ہدیہ کردینے کے بعد اگر وہ شخص قربانی کا گوشت فروخت کرکے اس کی قیمت سے استفادہ کرے تو شامی وغیرہ سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے، اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مدارس وغیرہ کے لیے بطورِ ہدیہ یا بطورِ نفلی صدقہ چرمِ قربانی وصول کرنے کے بعد اسے فروخت کرکے اس سے حاصل شدہ رقم عطیات یا نفلی صدقات کے مصارف میں لگانا بلاشبہ جائز ہے، اس حوالے سے مفتی بہ قول کیا ہے؟ آگاہ فرمائیے!

3- اگر چرمِ قربانی سے حاصل شدہ رقم کو عام حالت میں عطیات کے مصارف میں صرف کرنا درست نہ ہو تو کیا شدید مجبوری کی صورت میں اساتذہ کی تنخواہ اس سے دی جاسکتی ہے؟ بعض اکابر علماء کے حوالے سے سنا ہے کہ انہوں نے چرم قربانی کی قیمت کے مصارف میں گنجائش دی ہے، بہرصورت صریح عبارات کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیے!

4- قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا مکمل نظم (چٹائیوں، ٹوکریوں کی خریداری سے لے کر طلبہ کا یومیہ اور کھالوں کی منتقلی و حفاظت کے تمام اخراجات بشمول کرائے اور دیگر بل وغیرہ) کیا کھالوں سے حاصل شدہ رقم سے پورا کیا جاسکتاہے؟ یا اس میں سے بعض اخراجات ادا کیے جاسکتے ہیں؟ اگر ادا نہیں کیے جاسکتے تو یہ مصارف کن مدات سے پورے کیے جائیں؟

5- اگر مذکورہ اخراجات نفلی صدقات سے پورے کرنا ضروری ہیں اور نفلی صدقات و عطیات میں اتنی گنجائش نہ ہو تو ادارہ کیا کرے؟ اور گنجائش ہونے کی صورت میں کیا ادارہ اس بات کا مجاز ہوگا کہ وہ لوگوں کے دیے گئے عطیات (جو انہوں نے طلبہ اور دین کی اشاعت پر خرچ کرنے کے لیے دیے ہیں) کو عوام الناس کی قربانی کی کھالیں وصول کرنے میں صرف کرے؟

6- بعض لوگوں کی کھال اگر کوئی ایسا ادارہ یا تنظیم لے جائے جس پر انہیں اطیمنان نہ ہو، تو وہ کسی مستند دینی ادارے کو کھال کی رقم بھی جمع کرادیتے ہیں، یا کھال کسی ایک دینی ادارے کو دیتے ہیں اور رقم دوسرے دینی ادارے کو، ان دونوں صورتوں میں اس آمدہ رقم کے کیا مصارف ہوں گے؟

7- چرم قربانی کے مصارف کے حوالے سے دیگر اہم احکام، جن کی رعایت ہمیں کرنی چاہیے، اس حوالے سے بھی راہ نمائی کی درخواست ہے۔

جواب

1۔واضح رہےکہ قربانی کرنے والے لوگوں کی طرف سےدی جانے والی چرمِ قربانی کی حیثیت صدقہ کی ہوتی ہےالبتہ مہتممِ مدرسہ یامنتظمِ مدرسہ قربانی کرنے والے لوگوں کی طرف سے چرمِ قربانی بیچنےکا وکیل ہوتا ہے، تاکہ اسے بیچ کر طلبہ پراس کی رقم خرچ کی جائے،لہٰذا چرمِ قربانی میں جوتصرفات موکل(قربانی کرنے والا) کرسکتاہے  وہی تصرفات وکیل(مہتمم) بھی کرسکتا ہے  لہٰذااگرموکل چرم قربانی خود بیچ دیتاہے تو اس سےحاصل شدہ رقم اس پر زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کرناضروری ہوتاہے،اسی طرح مہتمم  چوں کہ وکیل ہے اس  لیے اگروہ  کھال کوفروخت کرے گا تو اس سے حاصل شدہ رقم زکوٰۃ کی مصرف میں لگاناضروری ہوگا۔

2۔قربانی کرنے والاچرم قربانی کو اپنے استعمال میں بھی لاسکتاہے، کسی کوہدیہ بھی کرسکتاہے، چاہے مال دارہو،سیدہو یاغیرمسلم ہو،لیکن اگر اس کو فروخت کرے گا تو پھر اس سے حاصل شدہ رقم  زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کرنالازم ہوگا،عطیات کے مصرف میں خرچ نہیں کرسکتا۔

نیزقربانی کرنے والے لوگ  کسی مدرسے کے مہتمم کوچرمِ قربانی اس لیے نہیں دیتے کہ وہ اسے اپنے استعمال میں لائے، بلکہ اس کوبیچنے اوراس کی رقم مدرسے کے  طلبہ پرخرچ کرنے کاوکیل بناتاہے، اس  لیے مہتمم کا چر مِ قربانی فروخت کرنے کےبعداس کی رقم مستحقِ زکوٰۃ  طلبہ پرخرچ کرنا ضروری ہے،اس  کوعطیات  کی مد میں استعمال نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ اگر قربانی کرنے والا خود  چرمِ قربانی کو فروخت کرتا تو اس کے اوپربھی  زکوٰۃ کے مصرف میں اس کی رقم صرف  کرنالازم ہوتا۔

   البتہ اگر قربانی کرنے والا کسی طالب العلم یا کسی مدرس کو چرمِ قربانی  ذاتی طور  پر دے دے، اگرچہ وہ غنی کیوں نہ ہو تو وہ پھرجیساچاہے استعمال کرسکتاہے۔

3۔چرمِ قربانی سے حاصل شدہ رقم اساتذہ کی تنخواہوں میں استعمال کرنادرست نہیں البتہ اگر شدید ضرورت ہوتو شرعی تملیک کے بعد تنخواہوں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

 قربانی کی کھال خود فروخت کرے یا وکیل کے ذریعہ فروخت کرائے اور اس سے جو رقم حاصل ہو وہ پوری رقم محتاج غریب مسلمانوں کو تملیکاً صدقہ کرنا واجب ہے؛اس  لیے کھالوں کے جمع کرنے پرجواخراجات آتے ہیں وہ کھالوں سےوصول ہونے والی رقم میں سے نہیں لے سکتے، اس کے لئے الگ فنڈ قائم کرنا چاہئے، اگرمذکورہ خرچ میں کھال کی رقم صرف کی جائے گی، تو تملیک نہ ہونے کی وجہ سے اتنی رقم صدقہ کرنے سے باقی رہ جائے گی۔

5۔اگرلوگوں  نےعطیات کی رقم  دیتے وقت مصرف کی صراحت کی ہومثلاً طلباء کے  کھانے میں خرچ کرناہے، یاکتابیں خریدنے میں خرچ کرناہے، تو اس صورت میں لوگوں کی دی ہوئی  عطیات کی رقم بھی مذکورہ مصرف میں خرچ کرنالازم ہے،اوراگردینے والے نے کوئی صراحت نہ کی ہو ، یاکارخیر میں صرف کرنے کاکہاہو، تو ایسی صورت میں  عطیات کی رقم  کھالوں کی وصولی پرآنے والے اخراجات میں صرف کرناجائز ہے۔

6۔اگرمذکورہ شخص نےکھال کی  رقم اس وجہ سے دی ہوکہ اس سے جس  ادارے  یاانجمن  والے کھال لے گئے ہیں ، شایدانہوں نےصحیح مصرف میں خرچ نہیں کیاہوگا،تو اس صورت میں کھال کی رقم زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہے،اوراگر مذکورہ  شخص کھال ایک ادارے  کودیتاہے اور اپنی طرف سے دوسرے ادارےکوصدقہ کے طور پرکچھ رقم دیتاہے تو اس صورت میں اس رقم کوعطیات کے مصرف میں استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاوى شامى ميں ہے:

"(وكره) (ذبح الكتابي) وأما المجوسي فيحرم لأنه ليس من أهله درر (ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب) وقربة وسفرة ودلو (أو يبدله بما ينتفع به باقيا) كما مر (لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه) كدراهم (فإن) (‌بيع ‌اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدراهم) (تصدق بثمنه) ومفاده صحة البيع مع الكراهة، و عن الثاني باطل لأنه كالوقف مجتبى. (و لايعطى أجر الجزار منها) لأنه كبيع واستفيدت من قوله عليه الصلاة والسلام «من باع جلد أضحيته فلا أضحية له» هداية."

(كتاب الاضحىۃ/ج:6/ص:328/ط:سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"(و لايبنى بها مسجد و لايكفن بها ميت) لانعدام التمليك وهو الركن ( ولايقضى بها دين ميت)...و کتب تحته ... (قوله: لانعدام التمليك و هو الركن) فإن الله تعالى سماها صدقة، وحقيقة الصدقة تمليك المال من الفقير."

(باب من یجوز دفع الصدقۃ/ج:2/ص:267/ط:دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"باب المصرف (قوله: أي مصرف الزكاة و العشر)... و هو ‌مصرف ‌أيضًا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني."

(باب مصرف الزكاة والعشر/ج:2/ص:339/ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

ويشترط أن يكون ‌الصرف (‌تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) لعدم التمليك وهو الركن.وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم۔ (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي۔

(باب مصرف الزكوة/ج:2/ص:334/ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

والواجب على الأئمة أن ‌يوصلوا ‌الحقوق إلى أربابها، ولا يحبسونها عنهم، ولا يحل للإمام، وأعوانه من هذه الأموال إلا ما يكفيهم وعائلتهم، ولا يجعلونها كنوزا، وما فضل من هذه الأموال قسم بين المسلمين فإن قصر الأئمة في ذلك فوباله عليهم۔

(البا ب الثامن فی صدقۃ الفطر/ج:1/ص:191/ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144302200033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں