بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسمس کے موقع پر کیک کاٹنے کی تقریب میں شرکت کرنا اور کیک کھانا جائز نہیں


سوال

 میں جس کمپنی میں نوکری کرتا ہوں وہاں پر 25 دسمبر کے دن کرسمس اور قائد اعظم کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کیک کاٹنے کی سریمنی منعقد کی جاتی ہے اب ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہم باہمی ہم آہنگی کے لیے یہ تقریب مناتے ہیں،  کیوں کہ ہمارے دفتر کے اندر ایک عیسائی بھی کام کرتا ہے، برائے کرم مجھے اس کے بارے میں گائیڈ کر دیں کہ یہ تقریب میں جانا حرام ہے، ناجائز ہے یا مکروہ ہے ؟اور اس تقریب کا کیک کھانا حرام ہے نا جائز ہے یا مکروہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر  ان کی  مجالس میں شرکت کرنا یا خود اس کی تقریب منعقد کرنا  یا انہیں مبارک باد دینا وغیر ہ  شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے؛ اس لیے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار ان کے مذہبی اعتقادات اور عبادات پر مبنی ہوتے ہیں اور اس  میں ان کے ساتھ شریک ہونا گویا کہ  ان کے مذہبی تہوار کو درست قرار دے کراس  کی تعظیم اور ان کے مذہب سے تعلق  کا اظہار ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ۲۵ دسمبر کو کیک کا کاٹا جانا چوں کہ عیسائی ملازم  کی عیسائیت (جو کہ شرک ہے)کے اعزاز میں ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کا مذہبی تہوار ہے اس وجہ سے اس دن کیک کاٹنے کی تقریب میں شرکت کرنا اور اس کیک کو کھانا شرعا نا جائز ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾[الأنعام: 68]

وفي أحكام القرآن للجصاص:

"قَالَ تَعَالَى: ﴿فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ يَعْنِي: بَعْدَمَا تَذْكُرُ نَهْيَ اللَّهِ تَعَالَى لَا تَقْعُدْ مَعَ الظَّالِمِينَ. وَذَلِكَ عُمُومٌ فِي النَّهْيِ عَنْ مُجَالَسَةِ سَائِرِ الظَّالِمِينَ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ وَأَهْلِ الْمِلَّةِ لِوُقُوعِ الِاسْمِ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، وَذَلِكَ إذَا كَانَ فِي ثِقَةٍ مِنْ تَغْيِيرِهِ بِيَدِهِ أَوْ بِلِسَانِهِ بَعْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَى الظَّالِمِينَ بِقُبْحِ مَا هُمْ عَلَيْهِ، فَغَيْرُ جَائِزٍ لِأَحَدٍ مُجَالَسَتُهُمْ مَعَ تَرْكِ النَّكِيرِ سَوَاءٌ كَانُوا مُظْهِرِينَ فِي تِلْكَ الْحَالِ لِلظُّلْمِ وَالْقَبَائِحِ أَوَغَيْرَ مُظْهِرِينَ لَهُ؛ لِأَنَّ النَّهْيَ عَامٌّ عَنْ مُجَالَسَةِ الظَّالِمِينَ؛ لِأَنَّ فِي مُجَالَسَتِهِمْ مُخْتَارًا مَعَ تَرْكِ النَّكِيرِ دَلَالَةً عَلَى الرِّضَا بِفِعْلِهِمْ وَنَظِيرُهُ قَوْله تَعَالَى: ﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرائيلَ﴾ [المائدة:78] الْآيَاتُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُ مَا رُوِيَ فِيهِ، وقَوْله تَعَالَى: ﴿وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾ [هود:113]".

  (جلد3، ص: 3ط: دار الکتب العلمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله -: (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلاً عبد الله تعالى خمسين سنةً ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر ولم يرد به تعظيم اليوم ولكن على ما اعتاده بعض الناس لايكفر، ولكن ينبغي له أن لايفعل ذلك في ذلك اليوم خاصةً ويفعله قبله أو بعده؛ لكي لايكون تشبيهاً بأولئك القوم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم  فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئاً يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر".

(8 / 555،  مسائل متفرقہ فی الاکراہ، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں