بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسچن لڑکی سے عدت میں نکاح کرنا


سوال

میں ایک کرسچن لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں جو کہ مسلمان نہیں ہونا چاہتی اور وہ پہلے ایک مسلمان کے نکاح میں تھی جس کے ساتھ یہ لڑکی 18 سال رہ چکی تھی، پھر وہ 10 ماہ سے الگ ہوگئے تھے، الگ الگ ملک میں، لیکن ان کی طلاق ابھی ہوئی ہے 10 ماہ کے بعد، تو اسلام میں اس عورت سے نکاح کرناجائز ہے یا نہیں؟ اور یہ عورت عدت میں بیٹھے گی یا نہیں؟ اور اگر بیٹھنا بھی ہوگا تو کتنے وقت کے لیے؟ کیو ں کہ وہ کرسچن ہے اور 10 ماہ تک وہ اپنے شوہر سے ملی تک نہیں، اور ان کی آدھی فیملی مسلمان ہے آدھی عیسا ئی، کھا نا پینا حلال ہے ان کا، پر لڑکی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتی ہے، کیا اس سے نکاح جائز ہے یا نہیں اسلام اور قرآن کے روشنی میں؟ اگر جائز ہے تو ان کے لیے عد ت کا کیا طریقہ ہوگا جب کہ لڑکی نے خود طلاق لی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عیسائی خاتون اگر اپنے  دین پر قائم ہو (یعنی لادین و دہریہ نہ ہو) تو اس سے مسلمان مرد کے لیے نکاح جائز ہے، لیکن بہت سے مفاسد کی وجہ سے اچھا نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں ان مردوں کو تنبیہ کی تھی جو   مسلمان خواتین کو چھوڑ کر اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کریں، نیز اسے دین اور اسلامی معاشرت کے لیے نقصان دہ قرار دے کر بعض کبار صحابہ کو اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح سے سختی سے منع فرمایا۔ اور اگر اہلِ کتاب عورت صرف نام کی عیسائی ہو، درحقیقت وہ بے دین/ دہریہ ہو (جیساکہ موجودہ زمانے میں بکثرت ایسے اہلِ کتاب موجود ہیں) تو اس سے نکاح ناجائز ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ (العیاذ باللہ) عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا  عیسائی عورت سے نکاح کے جواز کے لیے مانع نہیں ہوگا، کیوں کہ جس وقت قرآن کریم نے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی اس وقت بھی وہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا کا حصہ قرار دیتے تھے۔

نیز عدت کے دوران کسی مسلمان کے لیے نکاح جائز نہیں ہے، اور مسلمان کی بیوی اہلِ کتاب عورت ہو تو بھی اسے طلاق کی صورت میں عدت وہی ہوگی جو مسلمان عورت کی ہوتی ہے، یعنی حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل اور غیر حاملہ ہونے کی صورت میں اگر ماہواری آتی ہو تو تین ماہواریاں اور ماہواری نہ آتی ہو تو عدت تین ماہ ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ  کا مذکورہ لڑکی سے   (اگر وہ  اپنے اصل دین پر قائم ہے  ) نکاح کرنا اس کی عدت (تین ماہواریاں)کے بعد  جائز ہے، عدت سے پہلے جائز نہیں، اگرچہ وہ لڑکی شوہر  سے دس ماہ سے الگ رہ رہی ہے، اور عدت کا اعتبار طلاق کے دن کے بعد سے ہوگا۔ 

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقد كان عبد الله بن عمر لايرى التزويج بالنصرانية، ويقول: لا أعلم شركاً أعظم من أن تقول: إن ربها عيسى، وقد قال الله تعالى: {ولاتنكحوا المشركات حتى يؤمن}. [سورة المائدة: ٥]

علامہ شبیر احمد عثمانی تحریر فرماتے ہیں :

’’ کتابی عورت سے نکاح شریعت میں جائز ہے ۔۔۔مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانے کے ”نصاریٰ“ عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں نہ مذہب کے، نہ خدا کے، ان پر اہلِ کتاب کا اطلاق نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہلِ کتاب کا سا نہ ہوگا، نیز یہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم نہیں؛ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑے، بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہوتو ایسے حلال سے انتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی، موجودہ زمانے میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا، بے ضرورت اختلاط کرنا ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں وہ مخفی نہیں؛ لہٰذا بدی اور بددینی کے اسباب و ذرائع سے اجتناب ہی کرنا چاہیے‘‘۔ (ترجمہ شیخ الہند: فائدہ ۱۲، صفحہ ١٤٢، پارہ ٦،)

حضرت مفتی شفیع صاحب عثمانی لکھتے ہیں:

” جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک اگرچہ از روئے قرآن، اہلِ کتاب کی عورتوں سے فی نفسہ نکاح حلال ہے، لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اور خرابیاں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے، بلکہ پوری امتِ اسلامیہ کے لیے از روئے تجربہ لازمی طور پر پیدا ہوں گی ان کی بنیاد پر اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کو بھی مکروہ سمجھتے تھے، بالفرض اگر وہ اپنے مذہب کے پابند بھی ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانہ میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان کے لیے دینی او ردنیوی تباہی کو دعوت دینا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو شازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں جن کے عبرت نامے روز آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم او رسلطنت کو تباہ کردیا یہ ایسی چیزیں ہیں کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا“۔ (مستفاد معارف القرآن ( ٣ / ٦٢ - ٦٤)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ویجوز تزوج الکتابیات والأولى أن لایفعل‘‘.

(شامی: ٤/ ١٣٤، ط: زکریا)

شرح فتح القدير (3/ 414):

إذا كانت الكتابية تحت المسلم طلقها فإنه تجب العدة حقا له لأنه يعتقده فلا يصح نكاح هذه الكتابية فيها .

الفتاوى الهندية (1/ 533):

الكتابية إذا كانت تحت مسلم فعليها ما على المسلمة: الحرة كالحرة والأمة كالأمة، وإن كانت تحت ذمي فلا عدة عليها في موت ولا فرق عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إذا كان ذلك في دينهم وعندهما عليها العدة، كذا في السراج الوهاج.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں