زید بکر کو 20000 روپے بکرے کی قربانی کے لیے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میری طرف سے قربانی کرکے خود بھی گوشت کھائے اور تقسیم بھی کرے ،اب بکر کو 20 ہزار میں بکرا نہیں ملتا تو وہ اپنی جیب سے تبرعا ًاس میں 5 ہزار روپے ملا کر 25 ہزار کا بکرا خرید کر قربانی زید کی طرف سے کر دیتا ہے ،کیا زید کی قربانی ہوگئی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر بکر ،زید کو اطلاع دیے بغیر اپنی جانب سے اس قربانی کے جانور میں رقم تبرع کے طور پر شامل کردیتا ہے،یا زید کی جانب سے دی گئی رقم سے زائد رقم بکر، زید کو اطلاع دے کر زید کی جانب سے شامل کرتا ہے تو کل رقم زید کی جانب سے شمار ہوگی، اور بکر کا زید کی جانب سے اس صورت میں چھوٹا جانور قربان کرنا درست ہوگا اور زید کی قربانی ادا ہوجائے گی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70):
"وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200304
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن