بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹے گاؤں میں جمعہ کاحکم


سوال

 ہمارے گاؤں میں دیوبندی حضرات کی ایک مسجد ہے جس میں چالیس سے پچاس نمازی ہوتے ہیں جبکہ شعبان رمضان اور شوال کے مہینوں میں سو تک تقریباً نمازی ہوتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا ہم وہاں پر جمعہ کی نماز پڑھانے کی ترتیب بناسکتے ہیں یا نہیں؟ جبکہ ضرورت کی تقریبا اشیاء (روڈ'ڈاکٹر اور دکانیں وغیرہ موجود ہیں) جبکہ گاؤں میں دو غیر مقلد بندے ہیں جنہوں نے اپنے گھر کی چھت پر جمعہ کی نماز شروع کی ہے ،اب ہمارے لئے کیا حکم ہے کہ ہم بھی جمعہ پڑھانا شروع کریں یا پھر اپنی مسجد میں ظھر کی نمازہی پڑھیں؟۔

وضاحت :گاؤں میں ایک سو بیس مکان ہیں ،شہر  تقریبا ڈھائی گھنٹے دور ہے ،چار پانچ دکانیں ہیں ، پولیس اسٹیشن بھی نہیں ہے ، کوئی چیز منگوانی ہو تو شہر سے ہی منگوائی جاتی ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ گاؤں میں جواز  جمعہ  کے لیے  اس جگہ کا مصر ہونا یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو ۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ گاؤں میں  جمعہ کی ادا ئیگی کے لیے جو شرائط ہیں وہ پائی نہیں جارہی ہیں لہذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ہے ، گاوں والے جمعہ کے دن ظہر کی نماز ہی ادا کریں گے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيرۃ فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح".

  (کتاب الصلوۃ،فصل بیان شرائط الجمعۃ ،260/1،دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق،۔۔۔ وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة".

(كتاب الصلوة ،باب الجمعة،138/2،  سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144406100635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں