بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹے گاؤں میں جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

 ہمارے گاؤں میں دیوبندی حضرات کی ایک مسجد ہے جس میں پنج وقتہ نمازوں میں چالیس سے پچاس نمازی ہوتے ہیں، جب کہ شعبان، رمضان اور شوال کے مہینوں میں تقریباً  سو تک  نمازی ہوتے ہیں ،  سوال یہ ہے کہ کیا ہم وہاں پر جمعہ کی نماز پڑھانے کی ترتیب بناسکتے ہیں یا نہیں؟ جب کہ ضرورت کی كچھ  اشیاء (روڈ،ڈاکٹر اور دکانیں وغیرہ) موجود ہیں،  جب کہ گاؤں میں دو غیر مقلد بندے ہیں جنہوں نے اپنے گھر کے چھت پر جمعہ کی نماز شروع کی ہے ،  اب ہمارے لیے کیا حکم ہے کہ ہم بھی جمعہ پڑھانا شروع کریں یا پھر اپنی مسجد میں ظہر کی نمار ہی پڑھیں؟

وضاحت: گاؤ ں میں ایک معمولی علاج معالجہ والا ڈاکٹر ہے، کوئی مستقل ہسپتال نہیں ہے، چار دکانیں ہیں، لیکن ضروریات کی اکثر اشیاء دو گھنٹے کے فاصلے پر شہر ہے وہاں سے لا تے ہیں، پولیس وغیرہ کی چوکی یا تھانہ نہیں ہے،  لوگو ں کی  کل تعداد تقریباً تین سو کے لگ بھگ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے قیام  کے لیے شہر /قصبہ /قریہ کبیرہ کا ہو نا شرط ہے ،قریۂ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ جس کی مجموعی آبادی کم ازکم ڈھائی تین ہزار افراد پر مشتمل  ہو اور وہاں روز مرہ کی ضروریات کی تمام چیزیں ملتی  ہوں ، علاج معالجہ کی سہولت میسر  ہو ،ڈاک خانہ وغیرہ  موجود ہو،مظلوم کو انصاف دلانے،پیش آمدہ مقدمات کو نمٹانے  کیلیے قاضی مقرر ہو،تو ایسی جگہ میں جمعہ  کی نماز قائم  کرنا جائز ہےاور جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ پائی جائیں وہاں جمعہ  كي نماز کا قیام جائز نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گاؤں کی  مجموعی  آبادی محض تین سو افراد  ہے، لہٰذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز شروع کرنا جائز نہیں ہے، مذکورہ گاؤں والے جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی نماز ہی پڑھیں، جمعہ کی شرائط پوری ہونے کے بغیر جمعہ پڑھنے والے اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہوں گے، ان کی وجہ سے جمعہ شروع کردینا جائز نہیں ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(ولأدائها شرائط في غير المصلي) . منها المصر هكذا في الكافي، والمصر في ظاهر الرواية الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض يقيم الحدود وينفذ الأحكام وبلغت أبنيته أبنية منى، هكذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان.وفي الخلاصة وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية ومعنى إقامة الحدود القدرة عليها، هكذا في الغياثية. وكما يجوز أداء الجمعة في المصر يجوز أداؤها في فناء المصر وهو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، 145/1، ط:رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 138/2، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح." 

(کتاب الصلاۃ، فصل بيان شرائط الجمعة، 260/1، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں