بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹے بچے کا اپنی قبر میں والدین کا دیدار اور ان کے سلام کا جواب دینا


سوال

میرا بچہ ’’محمد ابصار‘‘ پانچ 5 سال کی عمر میں پانی میں ڈوب کر انتقال کر گیاہے،   اب کیا وہ ہمیں یاد کرتا ہے؟  اور کیا وہ ہمیں قبر پر دیکھتاہے؟  اور سلام کا جواب خود دیتا ہے؟ یا بیچ  میں فرشتہ  جواب دیتا ہے؟

جواب

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی دنیا میں کسی کو جانتا تھا اور پھر اس کا انتقال ہوگیا تو جب وہ اس کی قبر پر جاکر سلام کرتا ہے تو صاحبِ قبر سلام کرنے والے کو پہچان بھی لیتا ہے اور اس کے سلام کا جواب بھی دیتا ہے۔ 

سائل    کا بچہ  اپنے والدین کو قبر میں یاد کرتاہے یا نہیں  اس متعلق کوئی تصریح نہیں ملی، البتہ اگر  بچے کے والدین   اپنے بچے کی قبر پر جائیں تو  ان  کا بچہ ان کو پہچانتا بھی  ہے  اور سلام کریں   تو  یہ بچہ  خود ہی سلام کا جواب دیتاہے، فرشتے اس کی طرف سے جواب نہیں دیتے،  اور اسی طرح اگر اس کے والدین کو ئی اچھے کام کرکے بچے کو ایصال کریں تو وہ بچے تک پہنچائے جاتے ہیں، او ر اس کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے ، جس سے بچے کی روح خوش ہوتی ہے، نیز بچوں  کی ارواح کے متعلق یہ تصریح موجودہے کہ  بچوں کے انتقال کے بعد ان کی ارواح  جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ان کی نگرانی میں رہتی ہیں۔

سائل بچے کے سلسلے میں اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے اور صبر سے کام لے، کیوں کہ بچے قیامت کے دن اپنے والدین کے حق میں سفارشی بنیں گے،  جیسا کہ  حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس مسلمان کے تین بچے نابالغ مریں گے وہ جنت کے آٹھوں دروازوں سے اس کا استقبال کریں گے کہ جس سے چاہے داخل ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یا دو؟ فرمایا: دو (پر بھی اجر ہے)، عرض کیا گیا: یا ایک؟، فرمایا: یا ایک (پر بھی اجر ہے)۔ پھر فرمایا: قسم اس  ذات کی جس کے  قبضہ میں میری جان ہے کہ جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں (روح پھونکے جانے سے پہلے ) ہی ساقط (ضائع) ہو گیا اگر ثوابِ الہی کی امید میں اس کی ماں صبر کرے تو وہ اپنی نال (ناف سے ملے ہوئے حصے) سے اپنی ماں کو جنت میں کھینچ لے جائے گا۔‘‘ اسی طرح  ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ :" جب كسي بندے كا بيٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالى اپنے فرشتوں سے كہتا ہے تم نے ميرے بندے كےبيٹے كي روح قبض كرلي؟ تو وہ كہتےہيں: جي ہاں، تو اللہ تعالى كہتا ہے تم نے اس كےدل كا پھل اور ٹكڑا قبض كرليا تو وہ كہتے ہيں: جي ہاں، تواللہ تعالى كہتا ہے: ميرے بندے نے كيا كہا؟ توفرشتےجواب ديتے ہيں اس نےتيري حمد و تعريف اور  إنا للہ وإنا إليه راجعون پڑھا، تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: ميرے بندے كےلئے جنت ميں ايك گھر تيار كردو اور اس كانام بيت الحمد ركھو "۔

ترمذی شریف میں ہے:

"حدثنا سويد بن نصر قال: حدثنا عبد الله بن المبارك، عن حماد بن سلمة، عن أبي سنان، قال: دفنت ابني سنانا، وأبو طلحة الخولاني جالس على شفير القبر، فلما أردت الخروج أخذ بيدي، فقال: ألا أبشرك يا أبا سنان؟ قلت: بلى، فقال: حدثني الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب، عن أبي موسى الأشعري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا مات ولد العبد قال الله لملائكته: قبضتم ولد عبدي، فيقولون: نعم، فيقول: قبضتم ثمرة فؤاده، فيقولون: نعم، فيقول: ماذا قال عبدي؟ فيقولون: حمدك واسترجع، فيقول الله: ابنوا لعبدي بيتا في الجنة، وسموه ‌بيت ‌الحمد ": هذا حديث حسن غريب، واسم أبي سنان عيسى بن سنان."

(أبواب الجنائز، باب فضل المصيبة إذا احتسب، ج:3،ص:332، ط:مصطفي البابي الحلبي)

مسند احمد میں ہے :

"عن معاذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلمين يتوفى لهما ثلاثة إلا أدخلهما الله الجنة بفضل رحمته إياهما» . فقالوا: يا رسول الله أو اثنان؟ قال: «أو اثنان» . قالوا: أو واحد؟ قال: «أو واحد» . ثم قال: «والذي نفسي بيده إن السقط ليجر أمه بسرره إلى الجنة إذا احتسبته»."

(حدیث معاذ بن جبل ،ج:36،ص:410،ط:موسسة الرسالة)

وفيه أيضا:

"حدثنا عبد الرزاق حدثنا سفيان عمن سمع أنس بن مالك يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من الأموات فإن كان خيرا استبشروا به وإن كان غير ذلك قالوا: اللهم لا تمتهم حتى تهديهم كما هديتنا."

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: 20، صفحہ: 114، برقم: 12683، ط:  مؤسسة الرسالة)

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا موسى بن داود، حدثنا عبد الرحمن بن ثابت، عن عطاء بن قرة، عن عبد الله بن ضمرة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم - فيما أعلم شك موسى - قال: " ذراري المسلمين في الجنة، ‌يكفلهم إبراهيم ".

(مسند أبي هريرة رضي الله عنه، ج:14، ص:71، رقم: 8324 ط:مؤ سس الرسالة)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

"وفيه أبلغ الرد لقول بعض الشافعية وغيرهم: إن الأولى عليكم السلام، لأنهم ليسوا أهلاً للخطاب، مع ظهور بطلان تعليلهم؛ لأنه لا فرق من حيث الخطاب بين تقدمه وتأخره على أن الصواب أن الميت أهل للخطاب مطلقاً، لما سبق من الحديث: " «ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام."

(كتاب الجنائز، باب زيارة القبور، ج:4،ص:1257، ط:دار الفكر)

"شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبورللسيوطي" میں ہے:

"أخرج إبن أبي الدنيا في كتاب القبور عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا إستأنس ورد عليه حتى يقوم. وأخرج أيضا والبيهقي في الشعب عن أبي هريرة رضي الله عنه قال إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام. وأخرج إبن عبد البر في الإستذكار والتمهيد عن إبن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام صححه عبد الحق. وأخرج إبن أبي الدنيا في القبور والصابوني في المائتين عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما من عبد يمر على قبر رجل يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام."

(باب زيارة القبور وعلم الموتى بزوارهم ورؤيتهم لهم، ص: 201، ط: دار المعرفة - لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"وقال ابن القيم: الأحاديث والآثار تدل على أن الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به ورد عليه وهذ عام في حق الشهداء وغيرهم وأنه لا توقيت في ذلك."

(کتاب الصلاۃ، باب أحكام الجنائز، فصل في زيارة القبور، ص: 620، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال(317): مرنے والے کو مرنے کے بعد اپنے ماں باپ سے کوئی تعلق رہتا ہے؟

الجواب حامدومصلیاً: رہتا ہے، اس طرح کہ میت کو ان کے اعمال کی اطلاع دی جاتی ہے، اگر اچھے اعمال ہیں  تو میت کی روح کو خوشی ہوتی ہے، اگر بُرے اعمال ہیں تو رنج ہوتا ہے، اور وہ رُوح ان کی اصلاح کی دعا کرتی ہے، اور یہ تعلق ماں باپ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع اقربا اور متعارفین سے رہتا ہے۔"

(باب ما یتعلق باحوال القبور  والارواح، ج: 1، صفحہ: 611 و612، ط: مکتبہ الفاروق کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں