ایک مسجد، جو فقط ایک ہال یا ایک کمرے پر مشتمل ہو، اس میں فجر کی جماعت جاری ہو تو اس میں تاخیر سے آنے والے کاکسی ستون وغیرہ کی آڑ یا اوٹ لئے بغیر فجر کی سنتیں ادا کرنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
واضح رہے،کہ مذکورہ سوال میں مطلوبہ امر یہ نہیں ہے کہ فرض جماعت شروع ہونے کے بعد اسے سنتیں کس وقت تک ادا کرنی یا ترک کرنی چاہیے ، بلکہ مقصود اس امرکی آگاہی حاصل کرنا ہے ،کہ اگر ہال یا کمرہ ایک ہی ہو اور کسی ستون کی آڑ یا اوٹ بھی دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں سنتوں کی ادائیگی کے بارے میں شریعت کی رہنمائی میں کیا عمل اختیار کرنا چاہیے ؟
واضح رہے ،کہ فجر کی سنت پڑھنے کے بارے میں دیگر سنتوں کی بنسبت زیادہ تاکید آئی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں فجر کی سنت جماعت کی صفوں سے ہٹ کر اگر مسجد کی ایک طرف میں ادا کرلی جائے ،تو سنت ادا ہوجائیگی، اگر چہ کسی ستون کی آڑ یا اوٹ دستیاب نہ ہو۔
ہندیہ میں ہے:
"الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقوله عليه السلام صلاة الرجل في المنزل أفضل إلا المكتوبة ثم باب المسجد إن كان الإمام يصلي في المسجد ثم المسجد الخارج إن كان الإمام في الداخل والداخل إن كان في الخارج وإن كان المسجد واحد فخلف أسطوانة وكره خلف الصفوف بلا حائل، وأشدها كراهة أن يصلي في الصف مخالطا للقوم وهذا كله إذا كان الإمام في الصلاة أما قبل الشروع فيأتي بها في المسجد في أي موضع شاء ."
(کتاب الصلوۃ،الباب التاسع فی النوافل،113/1،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
طحطا وی میں ہے:
"واعلم أن السنة في السنن التي قبل الفرائض أن يأتي بها في بيته أو عند باب المسجد وإن لم يمكنه ففي المسجد الصيفي ان كان الإمام في الشتوي وبالعكس وإن كان المسجد واحدا فخلف أسطوانة أو نحوذلك أو في آخر المسجد بعيدا عن الصفوف في ناحية منه ويكره أن يصليها مخالطا للصف مخالفا للجماعة أو خلف الصف من غير حائل والأول أشد كراهة وأما التي بعدها فالأفضل فعلها في المنزل إلا إذا خاف الاشتغال عنها لو ذهب إلى البيت فيأتي بها في المسجد في أي موضع شاء ولو في مكانه الذي صلى فيه الفرض والأولى أن يتنحى عنه ."
(کتاب الصلوۃ،فصل فی الاوقات المکروھة،190،ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100916
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن