بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹی مسجد میں نماز کے دوران اسپیکر استعمال کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے  انڈیا میں ایک علاقے کی حد میں ایک مسجد ہے، جو تقریبًا  ۱۵ /۳۰ فٹ پر ہے جو کہ تین منزلہ ہے،  جس میں ہر فلور پر چھوٹی چھوٹی چار صفیں ہیں،  جس میں ماہانہ یا سالانہ اوسط نکالا جائے تو نیچے کے حصہ کی چار صفیں مکمل نہیں ہوتی ہیں ،جمعہ کے علاوہ کبھی کبھار مغرب میں یا محلہ میں شادی یا میت یا کسی تقریب کے وقت اوپر دوسری منزل پر کچھ نمازی  ہوتے ہیں اور ماشاءاللہ اس مسجد کے امام صاحب کی آواز بلندہے اس کے باوجود اس مسجد میں جو  مائک ہے اسے اگر ہونٹوں سے بالکل قریب رکھا جائے تو سانس کی آواز بھی سنائی دیتی ہےاور امام صاحب کی عادت بھی مائک کو ہونٹوں سے بالکل قریب لگانے کی ہےجس کی وجہ سے سری نمازوں میں امام صاحب کی قراءت  ہلکی آواز میں اکثر و بیشتر سنائی دیتی ہےاور فجر کے علاوہ امام صاحب سب نمازوں میں مائک کا استعمال کرتے ہیں جس کی آواز مسجد کے باہر تقریبا ۲۰ سے ۳۰ میٹر تک جاتی ہےاور مسجد غیر مسلموں کے علاقے میں ہےجس میں مسجد کے بالکل سامنے اور پیچھے چند مکانات عیسائی غیر مسلموں کے ہیں جو ایک شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں تو معلوم یہ کرنا ہے کہ 

۱۔ اتنی چھوٹی مسجد  جس میں چار صفیں مکمل نہ ہوتی ہوں تو کیا مائک کا استعمال جائز ہے؟ 

۲۔ اگر  استعمال جائز ہے تو والیم کتنا ہونا چاہیے  جہاں تک نمازی ہیں وہاں تک آواز جائے یا پورے علاقے میں ؟اور ان چار صفوں تک آواز بنا مائک کے بھی جا سکتی ہے بلا تکلف کے۔

۳۔ اگر والیم بڑھا کر رکھنا جائز ہے تو  مائک کہا ں پر  لگایا جائے ابھی امام صاحب ہونٹوں سے بالکل چپکا کر لگاتے ہیں ۔اگر یہ ساری شکلیں جائز ہیں تو سری نمازوں میں قعدہ وغیرہ  تسبیح میں امام صاحب کی قراءت کا سنائی دینا اس سے نماز میں تو کوئی فرق نہیں آئے گا ، کیا نماز بلا کراہت جائز ہوگی؟

اگر سری نمازوں میں حکم مشین پر لگا کر جائز قرار دیا جائے تو ہم مقتدیوں کی نماز میں اقتدا  مشین کی مانی جائے گی یا امام کی؟ 

جواب

۱، ۲، ۳۔ نماز میں اسپیکر کا استعمال بقدر ضرورت  جائز ہے، لیکن بلاضرورت اسپیکر کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اگر نمازی کم ہوں اور اسپیکر کے بغیر بھی انہیں آواز پہنچ جاتی ہو تو  بغیر اسپیکر کے نماز پڑھالینی چاہیے۔ اگر اسپیکر کی  آواز ضرورت سے اس قدر بلند ہو کہ باہر کے لوگوں  کی تکلیف کا ذریعہ بنے تو  اس قدر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اسپیکر کی معتدل آواز رکھی جائے۔

باقی فقہاءِ  کرام نے سر  اور  جہر کی جو تعریفات کی ہیں ان کی رو سے  سری قرأت کا اطلاق اتنی آواز پر ہوتا ہے جس کو امام خود سن سکے یا اس کے بالکل قریب ایک، دو آدمی سن سکیں، جب کہ جہری قرأت کا اطلاق اس قرأت پر ہوتا ہے جو اتنی آواز سے ہو جس کو وہ لوگ بھی سن سکیں جو امام کے بالکل قریب نہ ہوں مثلاً  کم از کم پہلی صف والے نمازی، لہٰذا اگر کوئی امام سری نماز میں سری قرأت اتنی آواز میں کرتا ہے جس کو وہ خود سن سکے یا قریب کا کوئی ایک آدھ شخص سن سکے لیکن کسی مشین (مائیک یا اسپیکر وغیرہ) کے ذریعہ اس کی آواز دور تک پہنچ جائے تو اس سے وہ قرأت جہری نہیں بنے گی، کیوں کہ سر اور جہر  پڑھنے والے کا فعل ہے،  اس  لیے اس کا اعتبار پڑھنے والے سے ہی ہوگا، مشین کی وجہ سے آواز بلند ہونے سے قرأت جہری نہیں بنے گی، جیسا کہ اگر امام جہری نماز میں آہستہ سے قرأت کرے، لیکن مشین ( لاؤڈ اسپیکر اور مائیک وغیرہ) کے ذریعہ سے آواز اونچی آئے جو اس سے سری قرأت جہری نہیں بنے گی۔ اور اگر جہری نماز میں اس قدر آواز میں تلاوت کی گئی تو جہری نماز میں واجب (جہری قرأت) چھوٹنے کا حکم لگایا جائے گا۔ 

صورتِ مسئولہ میں امام صاحب کو چاہیئے کہ اگر اسپیکر کی واقعۃ ضرورت ہو تو اسپیکر کو بقدر ضرورت  استعمال کریں ورنہ نہیں، نیز اگر اسپیکر استعمال کریں تومائک  کو منہ سے قدرے فاصلہ پر لگائے ، بہر صورت اقتداء امام ہی کی مانی جائے گی۔

«صحيح مسلم»ميں ہے:

"عن ابن عباس، في قوله عز وجل: {ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها} [الإسراء: 110] قال: نزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا صلى بأصحابه ‌رفع ‌صوته ‌بالقرآن، فإذا سمع ذلك المشركون سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به، فقال الله تعالى لنبيه صلى الله عليه وسلم: {ولا تجهر بصلاتك} [الإسراء: 110] «فيسمع المشركون قراءتك» {ولا تخافت بها} [الإسراء: 110] «عن أصحابك أسمعهم القرآن ولا تجهر ذلك الجهر» {وابتغ بين ذلك سبيلا} [الإسراء: 110]، «يقول بين الجهر والمخافتة."

(باب التوسط في القراءة في الصلاة الجهرية بين الجهر والإسرار، إذا خاف من الجهر مفسدة : 1/ 329 ، ط : دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی  میں ہے:

"صرح في السراج بأن الإمام إذا جهر فوق الحاجة فقد أساء اهـ."

(جلد۱،ص:۵۸۹، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إذا جهر الإمام فوق حاجة الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما يجهر لإسماع القوم ليدبروا في قراءته ليحصل إحضار القلب. كذا في السراج الوهاج."

(الباب الرابع في صفة الصلاة ، الفصل الثاني في واجبات الصلاة، جلد۱، ص:۷۲، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(و) أدنى (الجهر إسماع غيره و) أدنى (المخافتة إسماع نفسه) ومن بقربه؛ فلو سمع رجل أو رجلان فليس بجهر، والجهر أن يسمع الكل، خلاصة (ويجري ذلك) المذكور (في كل ما يتعلق بنطق، كتسمية على ذبيحة ووجوب سجدة تلاوة وعتاق وطلاق واستثناء) وغيرها.

 (قوله: وأدنى الجهر إسماع غيره إلخ) اعلم أنهم اختلفوا في حد وجود القراءة على ثلاثة أقوال:

فشرط الهندواني والفضلي لوجودها خروج صوت يصل إلى أذنه، وبه قال الشافعي.

وشرط بشر المريسي وأحمد خروج الصوت من الفم وإن لم يصل إلى أذنه، لكن بشرط كونه مسموعا في الجملة، حتى لو أدنى أحد صماخه إلى فيه يسمع.

ولم يشترط الكرخي وأبو بكر البلخي السماع، واكتفيا بتصحيح الحروف. واختار شيخ الإسلام وقاضي خان وصاحب المحيط والحلواني قول الهندواني، وكذا في معراج الدراية. ونقل في المجتبى عن الهندواني أنه لا يجزيه ما لم تسمع أذناه ومن بقربه، وهذا لايخالف ما مر عن الهندواني؛ لأن ما كان مسموعاً له يكون مسموعاً لمن في قربه، كما في الحلية والبحر. ثم إنه اختار في الفتح أن قول الهندواني وبشر متحدان بناء على أن الظاهر سماعه بعد وجود الصوت إذا لم يكن مانع. وذكر في البحر تبعاً للحلية أنه خلاف الظاهر، بل الأقوال ثلاثة. وأيد العلامة خير الدين الرملي في فتاواه كلام الفتح بما لا مزيد عليه، فارجع إليه. وذكر أن كلاً من قولي الهندواني والكرخي مصححان، وأن ما قاله الهندواني أصح وأرجح لاعتماد أكثر علمائنا عليه.

وبما قررناه ظهر لك أن ما ذكر هنا في تعريف الجهر والمخافتة، ومثله في سهو المنية وغيره مبني على قول الهندواني لأن أدنى الحد الذي توجد فيه القراءة عنده خروج صوت يصل إلى أذنه أي ولو حكماً. كما لو كان هناك مانع من صمم أو جلبة أصوات أو نحو ذلك، وهذا معنى قوله: أدنى المخافتة إسماع نفسه، وقوله: ومن بقربه تصريح باللازم عادةً كما مر. وفي القهستاني وغيره: أو من بقربه بأو، وهو أوضح، ويبتنى على ذلك أن أدنى الجهر إسماع غيره: أي ممن لم يكن بقربه بقرينة المقابلة، ولذا قال في الخلاصة والخانية عن الجامع الصغير: إن الإمام إذا قرأ في صلاة المخافتة بحيث سمع رجل أو رجلان لايكون جهراً، والجهر أن يسمع الكل اهـ أي كل الصف الأول لا كل المصلين: بدليل ما في القهستاني عن المسعودية إن جهر الإمام إسماع الصف الأول. اهـ.

وبه علم أنه لا إشكال في كلام الخلاصة، وأنه لا ينافي كلام الهندواني، بل هو مفرع عليه بدليل أنه في المعراج نقله عن الفضلي، وقد علمت أن الفضلي قائل بقول الهندواني. فقد ظهر بهذا أن أدنى المخافتة إسماع نفسه أو من بقربه من رجل أو رجلين مثلاً، وأعلاها تصحيح الحروف كما هو مذهب الكرخي، ولاتعتبر هنا في الأصح.

وأدنى الجهر إسماع غيره ممن ليس بقربه كأهل الصف الأول، وأعلاه لا حد له، فافهم، واغنم تحرير هذا المقام فقد اضطرب فيه كثير من الأفهام (قوله: ويجري ذلك المذكور) يعني كون أدنى ما يتحقق به الكلام إسماع نفسه أو من بقربه".

(جلد۱، ص: ۵۳۴، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں