بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹی بچی کے نکاح اور خیارِ بلوغ کا حکم


سوال

زید نے اپنی بیٹی کا نکاح پیدا ہونے کے وقت یا تین مہینے کے بعد کسی آدمی کے ساتھ کردیا تھا، کیا نکاح ہوگیا؟ کیا خیارِ  بلوغ کا اعتبار ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے دو گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کا نکاح کیا تھا تو نکاح درست ہے، اور  بیٹی کو  خیارِ بلوغ حاصل نہیں ہے، یعنی بالغ ہونے کے بعد بھی اس  نکاح کو رد نہیں کرسکتی۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:3، ص:66، ط: دار الفكر-بيروت):

’’(و لزم النكاح و لو بغبن فاحش) بنقص مهرها و زيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أباً أو جدًا) و كذا المولى و ابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانةً و فسقًا (و إن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، و كذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة، بحر.‘‘

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

دادا کے کیے ہوئے نکاح میں خیارِ بلوغ حاصل نہیں

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں