بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹے بچے اور بچی کا ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے کی صورت میں ان کی اولاد کا آپس میں نکاح کا حکم


سوال

نا بالغ لڑکا اور لڑکی دونوں چھوٹی عمر میں یعنی لڑکی کی عمر ۸ سال اور لڑکے کی عمر ۶ سال تھی، اس عمر میں  ایک نے دوسرے کو غیر اخلاقی طریقہ  سے ہاتھ لگایا اور کوئی فحش کام نہیں کیا چونکہ دونوں چھوٹی عمر کے ہیں۔ اور اب یہ دونوں بڑی عمر کے ہیں، اولاد والے ہیں۔ اب ان کی اولاد کا آپس میں رشتہ ہوسکتا ہے کہ نہیں شریعت کا کیا حکم ہے؟ یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے۔ اگر لڑکی بلوغ کے قریب ہو تو اس وقت کیا حکم ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط ہے کہ دونوں بالغ ہوں یا قریب البلوغ ہوں یعنی لڑکا ۱۲ سال یا اس سے زائد عمر کا ہو اور لڑکی ۹ سال یا اس سے زائد عمر کی ہو اور ایک دوسرے کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائیں یا بوس و کنار کریں یا جنسی تعلق قائم کریں تو  ایسی صورت میں ہر ایک کے اصول و فروع دوسرے کے لیے ہمیشہ محرم ہوجاتے ہیں  نیز یہ بھی واضح رہے کہ جن دو مرد اور عورت کے درمیان  ایک دوسرے کو شہوت سے ہاتھ لگانے کی وجہ سے حرمت  مصاہرت ثابت ہوجائے ان دونوں میں سے ایک کی اولاد  دوسرے کی اولاد  پر حرام نہیں ہوتی ہے۔

لہذا  صورت مسئولہ میں مذکورہ غیر اخلاقی حرکت کے وقت اگر واقعی لڑکی ۸ سال اور لڑکا ۶ سال کا تھا تو اس سےنہ صرف یہ کہ  ان دونوں  کے درمیان حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی،بلکہ  ان کی اولاد کا ایک دوسرے سے نکاح کرنا بھی شرعا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصلليل بعدم الاشتهاء يفيد أن من لا يشتهي لا تثبت الحرمة بجماعه ولا خفاء أن ابن تسع عار من هذا، بل لا بد أن يكون مراهقا، ثم رأيته في الخانية قال الصبي الذي يجامع مثله كالبالغ قالوا وهو أن يجامع ويشتهي، وتستحي النساء من مثله وهو ظاهر في اعتبار كونه مراهقا لا ابن تسع، ويدل عليه ما في الفتح مس المراهق كالبالغ وفي البزازية المراهق كالبالغ حتى لو جامع امرأته أو لمس بشهوة تثبت حرمة المصاهرة. اهـ.

وبه ظهر أن ما عزاه الشارح إلى الفتح وإن لم يكن صريح كلامه لكنه مراده. فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات ج نمرب ۳ ص نمبر ۳۵، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں