بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹے گاؤں میں جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

 جنوبی وزیرستان مکین سے آگے ایک گاؤں ہے،  درہ کے نام سے مشہور ہے،  اس میں موسم سرما میں تقریبا 13 سے 15 گھر آباد ہوتے ہیں جس میں آبادی تقریبا 150 افراد مع عورت اور بچوں پر مشتمل  ہوتاہے،  اور موسم گرما میں گھر 25 سے 30 تک پہنچ جاتے ہیں ، جس میں افراد 250 تک ہوتے ہیں مع مرد و زن کے ۔

یہ گاؤں بازار سے روڈ کے حساب سے سات سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور پیدل کے حساب سے سے 5 سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،  اس گاؤں میں روز مرہ  کی ضروریات کی اشیاء موجود نہیں ہے،  بلکہ اس کے لیے بازار جانا پڑتا ہے،  صرف ایک چھوٹی سی پرچون کی دوکان ہے،  باقی ہائی اسکول،  شفاخانہ،  ڈاکخانہ،  تھانہ،  موچی،  حجام وغیرہ  موجود نہیں ہے اور نہ ہی  پانچوں وقت نماز با جماعت کا اہتمام  ہوتاہے،  صرف ظہر عصر اور مغرب کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے،  جس میں پانچ سے دس افراد ہوتے ہیں اور کبھی کبھار بالکل نہیں ہوتے ہیں۔  اس مسجد میں تقریبا تیس پینتیس سال سے نماز جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھی جاتی تھی،  جب کہ2009ء  لے کر 2016 ء / 2017 ء تک آپریشن کی وجہ سے نماز جمعہ اور عیدین کو ترک کر دیا تھا، پھر 2016ء /   2017ء  سے لے کر اب تک یہ ترتیب ہوتی چلی آرہی ہے کہ گرمی کے موسم میں نماز جمعہ میں کم از کم 5 اور زیادہ سے زیادہ 15افراد ہوتے ہیں اور کبھی کبھار صرف امام صاحب ہوتا ہے،  اور سردی میں نماز جمعہ کو ترک کردیا جاتا ہے۔ 

اب ایک دو علماء جواز کے قائل ہیں لیکن اکثر مقامی علماء و مفتیان عظام عدم جواز کے قائل ہیں شرائط کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے،  جو عالم جواز کے قائل ہے اس کو یہ ظن غالب ہے کہ اگر لوگوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ اس علاقے میں از روئے شرع جمعہ کی نماز درست نہیں بلکہ ظہر پڑھنا ضروری ہے تو لوگ اس بات کو قبول کریں گے اور لوگوں کو روکنے میں جن مفاسد کا خدشہ ہے وہ پیدا نہیں ہوں گے۔  اہل بستی کے تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ جو حکم بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے اور اس کے جاری کردہ فتوی  کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ وعیدین کے صحیح ہونے کے لیے شہر ،مضافات شہر یا بڑی بستی /بڑاگاؤں کا ہونا شرط ہے،اوربڑی بستی یا بڑا گاؤں  وہ ہوتا ہےجو لوگوں کے عرف میں بڑا گاؤں  کہلائے،چناچہ جس بستی کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزارافراد پر مشتمل ہو ، جہاں تمام ضروریاتِ  زندگی بآسانی دست یاب ہوں، ہسپتال، ڈاک خانہ، تھانہ وغیرہ کا انتظام ہو اور اس گاؤں میں بازا ر اور دوکانیں موجود ہوں ،اور اس بازار میں ضروریات زندگی کا سامان باسہولت مل جاتا ہو،تو ایسے بڑے گاؤں میں جمعہ و عیدین   کی نماز قائم کرنا درست ہوتاہے،اور اگر مندرجہ بالا شرائط نہ پائی جائیں ،توایسی بستی/گاؤں  میں جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا درست نہیں ،بلکہ جمعہ کے دن  ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہوتاہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے مذکور"درہ" نامی گاؤں میں جمعہ کرانا جائز نہیں ہے

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله شرط أدائها المصر) أي شرط صحتها أن تؤدى في مصر حتى لا تصح في قرية ولا مفازة لقول علي - رضي الله عنه - لا جمعة، ولا تشريق، ولا صلاة فطر، ولا أضحى إلا في مصر جامع أو في مدينة عظيمة. رواه ابن أبي شيبة وصححه ابن حزم وكفى بقوله قدوة وإماما. وإذا لم تصح في غير المصر فلا تجب على غير أهله.

وفي حد المصر أقوال كثيرة اختاروا منها قولين: أحدهما ما في المختصر. ثانيهما ما عزوه لأبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث. قال في البدائع: وهو الأصح وتبعه الشارح، وهو أخص مما في المختصر. وفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء. وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج: 2، ص: 245۔247، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق... وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر."

(شامي، ‌‌كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج: 2، ص: 138، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

"ومن لاتجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة."

(كتاب الصلوة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج: 1، ص: 145، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102869

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں