بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوٹے گاؤں میں قدیم زمانہ سے جمعہ قائم ہو اور بند کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو اسے جاری رکھیں


سوال

ہمارے علاقہ کی آبادی دو ہزار سے کم ہے ،اور روز مرہ کی ضروریات بھی میسر نہیں ہیں ،لیکن عرصہ دراز سے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی ہے ،اگر کچھ علاقہ والے جو مسئلہ سے واقف ہیں اگر جمعہ نہ پڑھیں تو لوگ کہیں گے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے ،سوال یہ ہے کہ :

1)آیا اس علاقہ میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ؟

2)اگر جائز نہیں ،تو لوگوں کی بدگمانی سے بچنے کے لیے جمعہ میں شریک ہوجائیں نفل کی نیت کے ساتھ ،بعد میں ظہر کی نماز ادا کر لیں ،ایسا کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

3)اور اگر جمعہ صحیح نہیں ہے تو جو لوگ اب تک جمعہ پڑھ رہے ہیں ،آیا ان پر قضا لازم ہے یا نہیں ؟

جواب

1)واضح رہے کہ جمعہ کے لیے شہر،فناء شہر، قصبہ ،بڑا   گاؤں ہونا شرط ہے ،اور بڑا گاؤں وہ ہے جس کی آبادی  ڈھائی تین ہزار تک ہو اور اس کے ساتھ  تمام تر  ضروریات زندگی بسہولت ہمیشہ ملتی ہوں۔

لہذا صورت مسئولہ میں  مذکورہ  گاؤں میں چوں کہ   مذکورہ  دوشرائط نہیں پائی جارہی ہیں اور جمعہ بھی عرصہ دراز سے ہو رہا ہے ،  اس لیے نرمی اور حکمت سے مسئلہ  سمجھادیا جائےاور جمعہ بند کرنے کی کوشش کی جائے ،جھگڑا و فساد نہ کیا جائے ،البتہ اگر بند کرنا ممکن نہ ہو ،فتنہ کا اندیشہ ہو تو جاری رکھیں،موقوف کرنا درست نہیں ہے ۔

2)اگر بند کرنا ممکن نہیں ہے تو   سب  کے سب ہی جمعہ میں شریک ہو جائیں ،جمعہ ادا ہو جائے گا،احتیاطاً  ظہر کی نماز پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

3)ان کی جمعہ کی نمازیں  درست ہیں   ،قضا ان پر لازم نہیں ہے۔ 

تنویر الابصار میں ہے:

"ویشترط لصحتہا المصر وہو ما لا یسع اکبر مساجدہ اہلہ المکلفین بہا   أو فناءه وهو ما اتصل به  لأجل مصالحه۔"

(رد المحتار کتاب الصلوۃ  باب الجمعۃ 2/138 ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـإلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك. اهـ"

(رد المحتار کتاب الصلوۃ  باب الجمعۃ 2/138 ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وكذا) لا يتنفل (بعدها في مصلاها) فإنه مكروه عند العامة (وإن) تنفل بعدها (في البيت جاز) بل يندب تنفل بأربع وهذا للخواص أما العوام فلا يمنعون من تكبير ولا تنفل أصلا لقلة رغبتهم في الخيرات بحر. وفي هامشه بخط ثقة وكذا صلاة رغائب وبراءة وقدر لأن عليا - رضي الله عنه - رأى رجلا يصلي بعد العيد فقيل أما تمنعه يا أمير المؤمنين؟ فقال أخاف أن أدخل تحت الوعيد قال الله تعالى {أرأيت الذي ينهى} [العلق: 9] {عبدا إذا صلى} [العلق: 10]وفی رد المحتار : أقول: وظاهر كلام البحر أنه زاد التنفل بحثا منه واستشهد له بما في التجنيس عن الحلواني أن كسالى العوام إذا صلوا الفجر عند طلوع الشمس لا يمنعون لأنهم إذا منعوا تركوها أصلا، وأداؤها مع تجويز أهل الحديث لها أولى من تركها أصلا۔"

(کتاب الصلاۃ،باب العیدین ،ج:2،ص:171،ط:سعید)

شرح النووی للمسلم میں ہے:

"عن تميم الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين عامتهم

وأما نصيحة عامة المسلمين وهم من عدا ولاة الأمر فإرشادهم لمصالحهم في آخرتهم ودنياهم وكف الأذى عنهم فيعلمهم ما يجهلونه من دينهم ويعينهم عليه بالقول والفعل وستر عوراتهم وسد خلاتهم ودفع المضار عنهم وجلب المنافع لهم وأمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر برفق وإخلاص والشفقة عليهم وتوقير كبيرهم ورحمة صغيرهم۔"

(الصحیح لمسلم مع شرحہ للنووی کتاب الایمان باب الدین النصیحۃ،ج:1،ص:54،ط:قدیمی)

کفایت المفتی میں ہے:

"جہاں کافی عرصہ سے جمعہ پڑھا جاتا ہو 

(سوال)  ایک بستی میں ہمیشہ سے لوگ جمعہ پڑھتے ہیں اب ایک مولوی صاحب بند کرانا چاہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ اس ملک گجرات میں چھوٹی چھوٹی بستیاں ہندوؤں کی بسائی ہوئی ہیں اور ان میں  پانچ یا سات گھر مسلمانوں کے ہوں وہاں جمعہ شروع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

 (جواب)  جن بستیوں میں قدیم سے جمعہ پڑھا جاتا ہے  اور جمعہ چھوڑانے سے لوگ نماز پنج وقتہ بھی چھوڑ دیتے ہیں  ایسی بستیوں میں جمعہ پڑھنا چاہئیے تاکہ اسلام کی رونق اور شوکت قائم رہے اور جو لوگ کہ ایسے گاؤں میں جمعہ پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے وہ نہ پڑھیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا  چاہئیے پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں ہیں اور نہ پڑھنے والے بھی گناہ گار نہیں آپس میں اختلاف اور فتنہ و فساد پیدا کرنا حرام ہے، ہاں جن چھوٹے گاؤں میں پہلے سے جمعہ قائم نہیں ہے وہاں قائم نہ کریں اور جہاں  پہلے سے قائم تھا پھر چھوڑ دیا اور اس کی وجہ سے لوگوں نے نماز جمعہ چھوڑ دی وہاں پھر شروع کردیں ۔ "

(کتاب الصلوۃ،باب نماز جمعہ،ج:3،ص: 236، ط:مکتبہ فاروقیہ)

اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

"حنفی مذہب کے موافق قریٰ یعنی دیہات میں جمعہ صحیح نہیں ہوتا اس لئے اگر کسی گاؤں میں پہلے سے جمعہ  قائم  نہیں ہے تو وہاں جمعہ قائم نہ کرنا چاہئے کیونکہ حنفی مذہب کے موافق اس میں جمعہ صحیح نہ ہوگا اور فرض ظہر جمعہ  پڑھنے سے ساقط نہ ہوگا لیکن اگر وہاں قدیم الایام سے  جمعہ قائم ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں یا یہ کہ اسلامی حکومت میں بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہوا تھا تو حنفی مذہب کی رو سے بھی وہاں جمعہ صحیح ہوتا ہے اس لئے بند کرنا درست نہیں‘،یا یہ کہ بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہونا ثابت نہیں یا یہ معلوم ہے کہ مسلمانوں نے خود قائم کیا تھا مگر ایک زمانہ دراز سے پڑھا جاتا ہے اس صورت میں حنفی مذہب  کے  اصول کے موافق تو اسے بند کرنا چاہئیے یعنی بند کرنا ضروری ہے لیکن چونکہ عرصہ دراز کے قائم شدہ جمعہ کو بند کردینے میں جو فتنے اور مفاسد  پیدا ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اس مسئلے میں حنفیہ کو شوافع کے مذہب پر عمل کرلینا جائز ہے اور جب کہ وہ شوافع کے مذہب پر عمل کرے جمعہ پڑھیں گے تو  پھر ظہر ساقط نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مفاسد لازمہ عمل بمذہب الغیر کے لئے وجہ جواز ہیں ۔"

(کتاب الصلوۃ،باب نماز جمعہ،ج:3،ص: 240، ط:مکتبہ فاروقیہ)

وفیہ ایضاً:

"چھوٹے گاؤں میں جمعہ درست نہیں ہے

(سوال )   ایک موضع میں قریباً ۳۰ آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں د و بار بڑی بازار لگتی ہے سامان ضروری مثلاً کفن وغیرہ ملتا ہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لئے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں اب اس موضع میں شرعاً جمعہ جائز ہے یا نہیں ؟  

(جواب)  اگر نماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تو اب اس کو  بند کرنے میں مذہبی و دینی فتنہ  ہے اس لئے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلے میں امام شافعی کے قول یا  امام مالک کے قول کے موافق عمل کرلینا جائز ہے ۔محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی"

(کتاب الصلوۃ،باب نماز جمعہ،ج:3،ص:  248، ط:مکتبہ فاروقیہ)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"ڈھائی ہزار کی آبادی میں جمعہ جائز ہے یا نہیں

(سوال) موضع راکھیڑہ میں مسلمانوں کی آبادی ڈھائی ہزار کی ہے ،چار مسجدیں ہیں اور بزازوں و عطاروں کی بہت دوکانیں ہیں اور ہمیشہ سے جمعہ ہوتا ہے اس گائوں میں جمعہ جائز ہے یا کیا۔

(الجواب ) ظاہرا وہ بڑا گائوں ہے اور بڑے قریہ میں جمعہ عند الحنفیہ واجب و ادا ہوتا ہے۔ کما فی الشامی ۔و تقع فرضا ً فی القصبات والقری الکبیرۃ الخ ۔"

(كتاب الجمعہ 5/125 ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں