بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

چوری شدہ سونےکی واپسی، قیمت اور نفع کا حکم


سوال

اگر کسی بیٹے نے 12 سال قبل اپنی والدہ کے تقریباً 15 سے 16 تولہ سونے کو چوری کر کے فروخت کر دیا ہو، تو اب واپس کرنے کی صورت میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟چوری کے وقت کی یا موجودہ وقت کی؟کیا والدہ ان سالوں میں اس سونے سے حاصل شدہ نفع کا بھی مطالبہ کر سکتی ہیں؟اور اگر بیٹا سونا واپس کرنے سے انکار کرے تو شریعت اس بارے میں کیا حکم دیتی ہے؟

جواب

  بیٹے پر لا زم ہے کہ  جس قدر سونا چوری کیا تھا، اتنی ہی مقدار والدہ کو ادا کرے۔ قیمت ادا کرنی ہو تو  آج کل مارکیٹ  میں جتنی  بنتی ہو وہ والدہ کو دیدے۔اگر بیٹے نے  اس چوری شدہ سونے سے اس عرصہ میں  نفع کمایاہو تو یہ نفع یا تو والدہ کو ادا کردے یا صدقہ کر دے اگر وہ سونا یا اس کی رقم والدہ کو واپس کر دے گا تو اس کے بعد اس سے حاصل شدہ نفع استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی ۔

واضح رہے کہ چوری کرنا ،ناحق کسی کا مال کھانا ،ناجائز اور حرام ہے۔لہذابیٹے پر لازم ہے کہ جلدازجلد والدہ کو سونا لوٹا دے اور اپنی اس حرکت پر توبہ اور استغفار کرے۔اگر وہ لوٹانے  سے انکار کردے تو والدہ عدالت سے رجوع کر کےاپنا  حق وصول کر سکتی  ہے۔ 

حدیث پاک میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أتدرون ‌ما ‌المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له، ولا متاع فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار ."

(صحيح مسلم ،كتاب البرو الصلة و الآداب ،باب تحريم الظلم، ج: 8، ص: 18،رقم الحديث: 2581، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھاکہ تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسباب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد  دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“

بدائع الصنائع میں ہےــ:

"أما السبب فهو أخذ مال الغير بغير إذنه لقوله عليه الصلاة والسلام: «على اليد ما أخذت حتى ترد» ، وقوله عليه الصلاة والسلام: «لا يأخذ أحدكم مال صاحبه لاعبا ولا جادا، فإذا أخذ أحدكم عصا صاحبه فليرد عليه» ولأن الأخذ على هذا الوجه معصية، والردع عن المعصية واجب، وذلك برد المأخوذ،"

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج:7،ص:148 ط :دار الكتب العلمية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(و عن أبي حرة) بضم الحاء المهملة وتشديد الراء (الرقاشي) بفتح الراء وتخفيف القاف (عن عمه) لم يذكره المؤلف لكن جهالة الصحابي لا تضر في الرواية (قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا") بالتخفيف للتنبيه ("لاتظلموا") أي: لايظلم بعضكم بعضًا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لاتظلموا أنفسكم، و هو يشمل الظلم القاصر والمعتدي ("ألا") للتنبيه أيضًا و كرره تنبيهًا على أن كلًّا من الجملتين حكم مستقلّ ينبغي أن ينبه عليه، و أن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحقّ بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ") أي: مسلم أو ذمي ("إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى".

( کتاب البیوع باب الغصب و العاریۃ  ج: 5، ص: 1974،  ط : دار الفکر بیروت )

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية )  میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:مكتبه رشيديه) 

بذل المجہود میں ہے :

" صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء."

(کتاب الطهارۃ، باب فرض الوضوء، ج:1، ص:359،  ط : مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي للبحوث  و الدراسات الإسلامیة الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں