بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری كردہ موبائل کی خرید و فروخت


سوال

ایک شخص نے کسی کا موبائل چوری کیا، پھر وہ چوری كردہ موبائل آگے کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا، پھر دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو، اب چوتھا شخص اسے آگے فروخت کرنا چاہتا ہے اور خریدنے والے کو معلوم ہے کہ یہ موبائل چوری کا ہے، کیا اس شخص کے لیے یہ موبائل خریدنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ چوری کامال جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ حرام ہی رہتا ہے اوراصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا، اس لیے چوری کا مال فروخت کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے، اور  اگر خریدنے والے کو کسی چیز کے بارے میں یقینی  معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے تو اس کے لیے اس کو  خرید نا  اور ستعمال کرنابھی  جائز نہیں ہے، اور اس کا منافع بھی حلال نہیں ہوگا۔

لہذا صورت ِمسئولہ میں مذکورہ چوری کا موبائل چوتھے شخص سے خریدنے والے کو جب یقینی معلوم ہے کہ یہ چوری کا موبائل ہے تو اس کا خریدنا جائز نہیں ہے۔

السنن الکبری   میں ہے:

" عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

 (کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، 5/ 548 ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

         فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

 ( کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ،مطلب فيمن ورث مالا حراما،5 /99، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه.

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".

 ( کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمة تتعدد،5/ 98، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں