بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری شدہ مال کا مالک معلوم نہ ہو تو اس سے بری الذمہ ہونے کا طریقہ


سوال

ایک شخص اسکول کے ہاسٹل میں پڑھتا تھا اور اس نے اپنے کسی ساتھی کے دو موبائل فون چوری کرلیے ، بعد میں قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی تو اسے احساس اور خوفِ آخرت ہوا اور وہ واپس کرنا چاہتا ہے لیکن نہ تو صاحب حق کا پتہ ہے اور نہ اس کے خاندان کا تو اب اسے کیا کرنا چاہیے کہ فراغ الذمہ ہوجائے ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ ميں مذكوره شخص كو چاہیے  كہ سب سے پہلے اس گناه پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار كرے، اور اس كے بعد   مذکورہ چوری  کئے  ہوئے موبائل جس شخص کے تھے ، اس کو کسی طرح  تلاش كرنے کی کوشش کرے ،  اگر وہ زندہ ہو تو اس کو، ورنہ اس کے ورثاء كو  وہ موبائل اگر موجود ہو تو دےدے اور اگر موجود نہ ہو تو اس کی قیمت پہنچادے، لیکن اگر تلاش کے باوجود  حق دار اور  اس کے ورثاء نہ مل سکیں تو  ایسی صورت میں اس رقم کو   اصل مالک کی نیت سے مستحق زکوٰۃ شخص کو  صدقہ کردے۔

فتاوی شامی میں ہے:

'' (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله)، هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافاً.

'' (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم''.

(4 /283، کتاب اللقطة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں