بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری شدہ مال اپنے اوپر ہی صدقہ کرنا


سوال

 غریب شخص نے ایسے آدمی کے 58 ہزار روپے چوری کیے جو آدمی بستر مرگ پر تھا،غریب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جب تک یہ زندہ ہے اس وقت تک تو میرے ذمے واجب ہے کہ میں اس کو  58 ہزار واپس کردوں،اور جیسے ہی یہ وفات پائےگا تو چوں کہ اس کا کوئی وارث نہیں، اس لیے58 ہزار روپے غریب کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنے ہوں گے،اور چوں کہ میں غریب ہوں اس لیے ان 58 ہزار روپے کو میں اپنے اوپر صدقہ  کرلوں گا،اب ایسا ہی اس نے کیا،جس کے  58 ہزار روپے چوری  کیے تھے وہ مرگیا اور اس کا کوئی وارث نہیں ،تو غریب شخص نےجس کے پیسے چوری  کیے تھے، اس نے اپنے اوپر ہی ان پیسوں کو استعمال کرلیا ،چوں کہ وہ بھی غریب ہے ،اور حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ مالک یا اس کےوارث تک لوٹانا ممکن نہ ہو تو اس مال کو ،غریب شخص کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیا جائے گا،اسی حکم کو مد نظر  رکھتے ہوئے غریب شخص نے جس سے پیسہ چوری کیے تھے، اس نے اپنے اوپر ہی ان پیسوں کو استعمال کرلیا،تو اب آگے سوال یہ ہے کہ کیا غریب شخص جس نے چوری کی تھی ،کیا اس کے ذمے واجب ہے کہ وہ 58 ہزار روپے یا 58 ہزار سے کم ، دوسرے غریب شخص کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردے؟

جواب

واضح رہے کہ چوری کرنا اور ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے،حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ:

”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں، اور مال واسباب نہ ہوں، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اور اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔‘‘

لہذا صورتِ مسئولہ میں  غریب شخص نے جو پیسہ چوری کیے اس کی ادائیگی اس پر لازم ہے،نیز اس موقع پریہ کہنا کہ" حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کے وارث تک لوٹاناممکن نہ ہو تو وہ مال غریب شخص کو  بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیا جائے لہذا ان پیسوں کو اپنے اوپر ہی استعمال کرلیا"یہ ایک چوری کے مال کو حلال کرنے کا بدترین حیلہ ہے،اور اللہ اور اس کی شریعت کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے،لہذا اس پر لازم ہے کہ اپنی اس حرکت پر توبہ واستغفار کرے،ا ور چوری کے ذریعہ حاصل کردہ رقم مرحوم کے ورثاء کو اگر چہ دور کےہوں تلاش کرکے رقم ان تک پہنچائے یا ان سے معاف کرائے،اگر وہ نہ ہوں تو اس رقم کو کسی اور پر صدقہ کرے۔

صحيح مسلم (4/ 1997):

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار."

"روح المعانی"میں ہے:

"وعندي ‌أن ‌كل ‌حيلة ‌أوجبت إبطال حكمة شرعية لا تقبل كحيلة سقوط الزكاة وحيلة سقوط الاستبراء وهذا كالتوسط في المسألة فإن من العلماء من يجوز الحيلة مطلقا ومنهم من لا يجوزها مطلقا، وقد أطال الكلام في ذلك العلامة ابن تيمية إنا وجدناه صابرا فيما أصابه في النفس والأهل والمال."

(سورة ص، ج:12، ص:200، ط:دار الكتب العلمية)

"مجلة الاحکام العدلیة"میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ص27،ط؛دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں