میرامال(مویشی ایک گائے اور تین بچھڑے ) سات ماہ قبل میرے فارم سے چرائے گئے،اب سے ایک ماہ قبل ایک نامعلوم شخص نے ویڈیو بھیجی کہ یہ غالباً آ پ کا بچھڑا ہے،جو شیخوان منڈی میں زید سے خریدا ہے،ہم نے بچھڑا پہچاننے کے بعد زید سے رابطہ کیااور ان سے ملاقات کے لیے ملتان چلے گئے،وہاں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کروائیں،جس کے بعد ہمیں باقی دو جانوروں کے متعلق بھی معلوم ہوا،اس میں ایک جانورفارمر زید کے پاس اس کے فارم میں موجود تھا،ہم اس کے فارم گئے اور کہا ہمیں معلوم ہے،آپ نے یہ کس سے خریدا ہے،د ود نوں تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا،پولیس کے ذریعے ایک جانور کو بازیاب کروالیا۔
(1)اب سوال یہ ہےکہ جو بچھڑا ہم نے پولیس کےذریعے بازیاب کروایا ہے،اس کے متعلق زید سے کیا معاملہ کرنا چاہیے،اس کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
(2)جو جانور رحیم یار خان میں ہے،اس کو پولیس کے ذریعے بازیاب کرواسکتے ہیں یا نہیں،یا جس کے پاس جانور موجود ہے اس سے معاملات طے کرنے چاہئیں؟
(3) آخری نشان جو معلوم ہوا ہے وہ حیدرآباد کا ایک نامور چور ہے،جس نے یہ مال ملتان میں بھیجا تھا،اس کوپولیس سے پکڑاوانے کے لیے کچھ رقم خرچ کرنی ہوگی اور شاید کچھ تشدد بھی کرنا پڑے،اس کو پکڑوا سکتے یا نہیں؟
واضح رہے کہ چوری کا مال کسی بھی شخص کے ہاتھ میں چلا جائے،وہ اصل مالک ہی کی ملکیت ہوتا ہے،نیز کسی بھی چیز پر خالص دعوٰی کرنے سے وہ چیز اس کی ملکیت نہیں بن جاتی ،جب تک دعوٰی کرنے والے اس کو شرعی گواہوں سے ثابت نہ کریں یا وہ مدعی علیہ خود اقرار کرے کہ یہ مستحق کی چیز ہے،نیز مستحق نکل آنے کے بعد جب وہ چیز اصل مالک لے لے،تو مشتری بائع سے قیمت کے لیے رجوع کرے گا،مستحق (اصل مالک ) سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
(1)لہذا صورتِ مسئولہ میں پولیس کے ذریعے سائل نے جس جانور کی بازیابی کروائی ہے، شرعی گواہوں کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ یہ سائل ہی کی ملکیت ہے،اگر سائل نے شرعی گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت کردیا،تواگر زید اصل چور ہے تو وہ کسی بھی شخص سے کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتا،اگر زید نے کسی شخص سے خریدا ہو،تو زیداپنے بائع سے اپنی رقم کے لیے رجوع کرے،سائل سے کسی رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا ، اور اگر سائل شرعی گواہوں کے ذریعے اپنا دعویٰ ثابت نہیں کرسکا،بلکہ از خود زید نے سائل کی ملکیت کا اقرار کرلیا،تو زید کسی سے بھی کسی بھی رقم وغیرہ کے لیے رجوع نہیں کرسکتا۔
(2)رحیم یار خان میں سائل کاجو جانور ہے،پہلے اس کو شرعی گواہوں کے ذریعے ثابت کرے کہ یہ سائل کا جانور ہے یا وہ خود اقرار کرے کہ یہ سائل کا جانور ہے لیکن دینے سے انکار کرے، توپولیس کے ذریعے بازیاب کروانا صحیح ہے ۔
(3) چور کو پولیس کے ذریعے گرفتار کرنا جائز ہے،اس کو پکڑوانے کے لئے جائز ذرائع کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم: (لي الواجد يحل عقوبته وعرضه). قال سفيان: عرضه يقول: مطلتني، وعقوبته الحبس."
"عن أبي هريرة رضي الله عنه:أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل يتقاضاه فأغلظ له، فهم به أصحابه، فقال: (دعوه، فإن لصاحب الحق مقالا)."
(كتاب الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس، باب: لصاحب الحق مقال، 845/2، ط: دار ابن كثير، دار اليمامة)
فتاوی شامی میں ہے:
"ويثبت رجوع المشتري على بائعه بالثمن إذا كان الاستحقاق بالبينة) لما سيجيء أنها حجة متعدية (أما إذا كان) الاستحقاق بإقرار المشتري أو بنكوله أو بإقرار وكيل المشتري بالخصومة أو بنكوله فلا) رجوع لأنه حجة قاصرة.
(قوله ويثبت رجوع المشتري على بائعه بالثمن إلخ) أشار إلى أن الاستحقاق لا بد أن يرد على ما كان ملك البائع ليرجع عليه...إذا ادعى المشتري استحقاق المبيع على بائعه ليرجع بثمنه، فلا بد أن يفسر الاستحقاق، ويبين سببه فلو بينه وأنكر البائع البيع، فأثبته المشتري رجع بثمنه...(قوله بإقرار المشتري) ولو عدل المشتري شهود المستحق قال أبو يوسف أسأل عنهما فإن عدلا رجع بالثمن وإلا فلا لأنه كإقرار ذخيرة (قوله أو بنكوله) كأن طلب المستحق تحليفه على أنك لا تعلم أن المبيع ملكي."
(كتاب البيوع، باب الاستحقاق، رجوع المشتري على البائع، 195/5۔196، ط: سعید)
البحرالرائق میں ہے:
"(قوله وإذا ثبت الحق للمدعي أمره بدفع ما عليه فإن أبى حبسه في الثمن والقرض والمهر المعجل وما التزمه بالكفالة) : لأنه جزاء الظلم وقد صار ظالما بمنعه أطلقه....لأنه جزاء الظلم فإذا امتنع من إيفاء الحق مع القدرة عليه خلده في الحبس."
(كتاب القضاء، فصل في الحبس، 308/6۔314، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا قطع السارق، والعين قائمة في يده ردت على صاحبها لبقائها على ملكه، كذا في الهداية...وإذا ملك السارق المسروق من رجل ببيع، أو هبة، أو ما أشبه ذلك قبل القطع، أو بعده فتمليكه باطل، ويرد المسروق على المسروق منه."
(كتاب السرقة، الباب الثاني فيما يقطع فيه وما لا يقطع فيه، الفصل الثالث في كيفية القطع وإثباته، 184/2، ط: دار الفكر بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وترد العين لو قائمة) وإن باعها أو وهبها لبقائها على ملك مالكها.
(قوله لبقائها على ملك مالكها) ولذا قال في الإيضاح قال أبو حنيفة: لا يحل للسارق الانتفاع بها بوجه من الوجوه."
(كتاب السرقة، باب كيفية القطع وإثباته، 110/4، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"وقال الكمال: لو تعمد الكذب في دعواه الدين لا يملكه أصلا، وقواه في النهر. وفيه: الحرام ينتقل.
(قوله الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، 98/5، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"فإذا ظفر بمال مديونه له الأخذ ديانة بل له الأخذ من خلاف الجنس."
(كتاب السرقة، 95/4، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102469
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن