بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری سے معافی کا طریقہ کیا ہے؟


سوال

 ایک شخص نے چوری کی ، کئی سال گزر گئے، لیکن اب اُسے یاد نہیں کہ جن سے چوری کی تھی وہ لو گ کہاں ہیں اور جتنی رقم چوری کی تھی وہ بھی بھول گیا ہے ۔ اس کی تلافی کیسے  ہو گی؟ جبکہ جن سے چوری کی تھی نہ وہ لوگ یہاں ہیں،  اگر ہیں تو جس سے چوری کی تھی اُس کو بھول گیا ہو کہ رقم کس بندے کی تھی اور کتنی تھی؟

جواب

صورت مسئولہ میں چور کے ذمہ چوری کردہ مال اصل مالک کو لوٹانا شرعا ضروری ہوگا،  پس اگر اعتراف جرم کے ساتھ لوٹانے کی ہمت نہ ہو، تو  اصل  مالک کو کسی بھی نام سے لوٹا سکتاہے، البتہ اگر مالک کو جانتا نہ ہو، یا  جانتا تو ہو، مگر   جستجو کے باوجود اس تک رسائی ممکن نہ ہوسکے، تو چوری کردہ مال مالک کی نیت سے صدقہ کرنا لازم ہوگا، اسی طرح سے اگر چوری کردہ رقم کی مقدار یاد نہ ہو، تو غالب گمان کے مطابق رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔

نیز چوری کے اس عمل پر  صدقِ دل سے درج ذیل شرائط کی رعایت کرتے ہوئے توبہ کرنا مذکورہ شخص پر لازم ہوگا:

1۔ فوری طور پر گناہ چھوڑ دینا۔

2۔ کردہ گناہ پر شرمندہ ہونا۔

3۔ اس عزم کے ساتھ توبہ کرنا کہ آئندہ اس گناہ کی طرف نہیں پھٹکے  گا۔

4۔ جس کا مال چوری کیا یا جس کی حق تلفی کی اس کو مال واپس کردینا، اور اپنے کیے پر معافی  تلافی کرنا۔

مسند الإمام أحمد بن حنبلمیں ہے:

"٤٢٦٤ - قرأت على أبي، حدثنا علي بن عاصم قال: أخبرنا الهجري، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التوبة من الذنب: أن يتوب منه، ثم لا يعود فيه. "

(مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، ٧ / ٢٩٩، ط: مؤسسة الرسالة )

شرح النووي علي مسلممیں ہے:

"قال أصحابنا وغيرهم من العلماء للتوبة ثلاثة شروط أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما أن لايعود إلى مثلها أبدا فإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فلها شرط رابع وهو رد الظلامة إلى صاحبها أو تحصيل البراءة منه والتوبة أهم قواعد الإسلام وهي أول مقامات سالكي طريق الآخرة. "

(كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب التوبة قوله صلى الله عليه وسلم يا أيها الناس توبوا إلى الله فإني أتوب في اليوم مائة مرة هذا الأمر بالتوبة موافق لقوله تعالى وتوبوا إلى الله جميعا أيها المؤمنون وقوله تعالى يا أيها الذين آمنوا توبوا إلى الله، ١٧ / ٢٥، ط: دارإحياءالتراثالعربي)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"و يردّونها على أربابها إن عرفوهم، و إلا تصدقوا بها؛ لأنّ سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ."

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں