بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چور پکڑنے میں قدم شناس کے قول کی حیثیت


سوال

ہمارے علاقے میں لوگ چورمعلوم کرنے کے لیے قدم شناس یا قدم پہچان لوگ لاکر چوری کی جگہ سے چور کے قدم بر قدم جاتے ہیں ،با لاخر قدم چورکے گھر تک یا اس کے کسی ٹھکانے تک پہنچ جاتے ہیں اور سارے گاؤں والوں کو جمع کرکے ان سے زمین پر ایک ایک قدم لگواتے ہیں؛ تا کہ وہ قدم پہچان  لیں۔ بالآخر قدم شناس مال کے  مالک کو کہتے ہیں کہ فلاں  شخص چور  ہے، میں نے اس کا چوری کی جگہ پر قدم لگنے سے یہی  قدم پہچان لیا ہے،   حال یہ  ہے کہ عام آدمی وہ قدم جو قدم شناس معلوم کرتاہے،  نہیں  دیکھ  سکتاہے ۔  اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا قدم شناس شریعت میں چور کے قدم سے چور معلوم کرنے  کے لیے ثبوت ہوسکتاہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں قدم شناس کی بات کو کوئی حق  یا جرم ثابت کرنے کے لیے  شرعی طور پر "دلیل"  اور  "ثبوت"  کا درجہ تو نہیں دیا جاسکتا،نہ ہی اس کی وجہ سے چور ی کااثبات ہوگا، البتہ اسے قرائن کا درجہ دیتے ہوئے تحقیق میں اس کی بات سے مدد یا تائید  لی جاسکتی ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2168):

"وقيل: فيه جواز الحكم بفعل القيافة، وبه قال الأئمة الثلاثة خلافا لأبي حنيفة. أقول: ليس في هذا الحديث ثبوت النسب بعلم القيافة، وإنما هو تقوية ودفع تهمة ورفع مظنة، كما إذا شهد عدل برؤية هلال ووافقه منجم، فإن قول المنجم لايصلح أن يكون دليلًا مستقلًا لا نفيًا و لا إثباتًا، ويصح أن يكون مقويًا للدليل الشرعي، فتأمل!

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200924

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں