بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور چوری کی شرعی سزا (حدِ سرقہ) کا بیان


سوال

چوری کیا ہے اور اس کا لفظی معنی کیا ہے؟ اور اسلام میں اس کی کیا سزا ہے؟

جواب

لغوی تعریف:

چوری کے لفظی معنیٰ ہیں: "پوشیدہ طور پر /آنکھ بچاکر کسی دوسرے کی کوئی چیز لے لینا"۔

اصطلاحی تعریف:

شریعت کی اصطلاح میں گناہ لازم ہونے کے حق میں تو چوری کی یہی تعریف ہے کہ "مکلف شخص کا دوسرے کا مال چھپاکر، ناحق طریقے سے لے لینا، چاہے  نصابِ  سرقہ  کی مقدار کے برابر ہو  یا نہ ہو۔"، لیکن چوری کی شرعی سزا (حدِ سرقہ) جاری ہونے کے لیے چوری کی تعریف میں درج ذیل شرائط وقیود کا اضافہ کیا جاتا ہے:

(1)چور کا مکلف اور صحیح سالم ہونا، یعنی عاقل بالغ بینا ہونا اور بائیں ہاتھ اور دائیں ٹانگ سے اور قوتِ گویائی سے محروم نہ ہونا، لہٰذا نابالغ، مجنون، نابینا، گونگے اور ایسے چور پر حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی جس کا بائیں ہاتھ اور دائیں ٹانگ مفلوج ہو، تاہم مال کا ضمان واجب ہوگا۔

(2)  ملکیت ہونا، یعنی چوری شدہ مال کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت ہو، اس میں چرانے والے کی ملکیت نہ ہو اور نہ ہی اس میں اس کی ملکیت کا شبہ ہو، اور نہ ہی چوری شدہ مال ایسی چیزوں پر مشتمل ہو جن میں عوام کے مساوی حقوق ہوں جیسے رفاہِ عام کے ادارے اور ان کی اشیاء۔

چناں چہ  اگر کسی شخص نے کوئی ایسی چیز لے لی جس میں اس کی ملکیت یا ملکیت کا شبہ ہو، یا جس میں عوام کے حقوق مساوی ہوں، تو اس پر حدِ سرقہ جاری نہیں کی جائے گی، البتہ حاکم اپنی صوابدید سے تعزیری سزا دے سکتا ہے۔

(3) مال کا محفوظ ہونا، یعنی چوری شدہ مال کا مقفل مکان یا کسی نگران چوکیدار وغیرہ کے ذریعہ محفوظ ہونا۔ اگر مال کسی جگہ محفوظ نہ ہو اور کوئی شخص اس کو اٹھالے، تو اس پر حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی۔ مثلاً مسجد، عید گاہ، پارک، اسٹیشن، ریل، جہاز وغیرہ عام جگہوں پر رکھے ہوئے مال یا درختوں پر لگے ہوئے پھل  کو اگر کوئی چرالے  تو حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی، اسی طرح اگر مال کے محفوظ ہونے میں شبہ ہوجائے تب بھی حد جاری نہیں ہوگی، تاہم تعزیری سزا دی جاسکتی ہے۔

(4) مال کا شرعاً قیمتی ہونا، یعنی ایسا مال چرانا جو شریعت کی نظر میں کچھ قدر وقیمت رکھتا ہو، لہٰذا مسلمان کی شراب چرانے پر حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی۔

(5) چوری شدہ مال ایسا ہو جو ایک سال تک خراب نہ ہوتا ہو، لہٰذا روٹی، گوشت، پھل، سبزیاں اور کھانے کی دیگر اشیاء جو سال بھر تک صحیح نہیں رہ سکتیں، ان کے چرانے پر حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی۔

(6) نصاب کے بقدر ہونا، یعنی چوری شدہ مال حدِ سرقہ کے شرعی نصاب کے برابر ہو، اگر چوری شدہ مال نصاب سے کم ہو تو اس پر حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی۔

اور حدِ سرقہ کے جاری ہونے کے لیے نصاب، علمائے حنفیہ ؒ کے نزدیک دس درہم ہے، جو دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی بنتی ہے، اور موجودہ اوزان کے بموجب اُس کی مقدار 30 گرام 618 ملی گرام چاندی ہوتی ہے ۔

(7) بلا اجازت اٹھانا، یعنی چور نے ایسا مال اٹھایا ہو جسے لینے یا اٹھانے کی اجازت نہ ہو، لہٰذا اگر کسی مال لینے کی یا اٹھاکر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہو، اور وہ اس کو بالکل لے جائے، تو اس پر بھی حدِ سرقہ جاری نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہو، خواہ وہ نوکر ہو یا مزدور  ہو، یا کوئی دوست یا عزیز ہو، اور وہ گھر سے کوئی چیز اٹھاکر لے جائے، تو ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا نہیں دی جائے گی، نیز اجازت شبہ بھی ہوجائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی جیب کاٹ لی، یا زیور نقدی وغیرہ چھین لی، یا دھوکہ دے کر لے لی، یا امانت لے کر مکر گیا، تو ان سب صورتوں میں بھی حدجاری نہیں ہوگی، بلکہ ان کو تعزیری سزا دی جائے گی، جو کہ حاکم کی صوابدید پر موقوف ہے۔

(8) چھپا کر لینا، یعنی چوری شدہ مال چھپ کر خفیہ طور پر لیا جائے، لہٰذا اگر کسی کا مال علانیہ لوٹا جائے، تو وہ چوری نہیں، بلکہ ڈاکہ ہے، جس پر چوری کی حد جاری نہیں ہوگی۔

(9) ارادہ ہونا، یعنی چور کا مقصود نصاب کے بقدر مال کو چوری کرنے کا ہی ہو، لہٰذا اگر کسی نے دس درہم کی مقدار سے کم کا کپڑا چرایا اور اُس کو معلوم نہیں تھا کہ کپڑے کے اندر کیا ہے، اس کا مقصد کپڑا چرانا ہی تھا، لیکن کپڑے میں دس درہم کے بقدر کوئی چیز نکل آئی، تو حدِ سرقہ جاری نہ ہوگی۔

جس چوری میں مذکورہ بالا تمام شرائط پائی جائیں گی، اس میں چوری کی شرعی سزا جاری ہوگی، باقی تمام قسموں میں جن میں مذکورہ بالا تمام شرطیں یا کوئی ایک شرط نہ پائی جائے، تو چوری کی شرعی سزا جاری نہیں ہوگی، تاہم  مسلمان حاکم اپنی صوابدید سے کوئی تعزیری سزا جاری کرسکتا ہے، اور مالی تاوان بہرحال لازم ہوگا۔

چوری کی شرعی سزا (حدِ سرقہ):

چوری کی شرعی سزا دو قسم پر  ہے، ایک کا تعلق چور کی ذات سے ہے، اور دوسری کا تعلق چوری شدہ مال سے ہے۔

پہلی سزا جس کا تعلق چور کی ذات سے ہے، وہ چور کا ہاتھ گٹے پر سے کاٹ دینا ہے۔

اور دوسری سزا جس کا تعلق چوری شدہ مال سے ہے، اس میں تفصیل ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چوری شدہ مال اگر چور کے پاس صحیح سالم حالت میں موجود ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، تو مالک کو وہ مال لوٹایا جائے گا، اور اگر چور نے اس مال میں کوئی تبدیلی کردی ہے، تو وہ تبدیلی دو حال سے خالی نہیں ہوگی: یا اُس تو چوری شدہ مال میں نقصان کردیا ہوگا، یا پھر اس میں اضافہ کردیا ہوگا، اگر نقصان کیا ہے، تو اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور چوری شدہ مال جس حالت میں ہے اسی حالت میں مالک کو لوٹادیا جائے گا، نقصان کا تاوان چور سے نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر چور نے مسروقہ مال میں کوئی اضافہ کردیا ہو، تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر اضافہ ایسا ہے کہ یہ اضافہ اگر غاصب کرتا تو اس  سے اصل مالک کی ملکیت ختم نہ ہوتی، بلکہ غاصب کو وہ مال مالک کو لوٹانا پڑتا، تو چور کو بھی وہ مال اضافے کے باوجود مالک کو لوٹانا پڑے گا، ورنہ بصورتِ دیگر وہ مال مالک کو نہیں لوٹایا جائے گا، بلکہ چور کے حق میں ہاتھ کاٹنے کی سزا ہی کافی شمار ہوگی۔

نیز اگر چوری شدہ مال چور کے پاس موجود نہ ہو، بایں طور کہ وہ ہلاک ہوگیا ہو، یا چور نے خود تلف کردیا ہو، بہرصورت اگر چور پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری ہوجائے، تو پھر وہ ہلاک شدہ مال کا ضامن نہیں ہوگا، لیکن اگر معاملہ مسلم عدالت میں جانے سے پہلے مالک چور سے مال کا تاوان وصول کرلے، تو پھر یہ تاوان کی سزا کافی ہوگی اور چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

اردو لغت (تاریخی اُصول پر) میں ہے: 

"چوری: (ومج) (الف) امث. کسی جگہ پوشیدہ طور پر داخل ہوکر یا کسی کی آنکھ بچا کر کوئی چیز ہتھیا لینا، چرانے کا عمل، سرقہ۔"

(٧/ ٦٩٥، ط: اردو لغت بورڈ کراچی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هي) لغة أخذ الشيء من الغير خفية، وتسمية المسروق سرقة مجاز. وشرعا باعتبار الحرمة أخذه كذلك بغير حق نصابا كان أم لا، وباعتبار القطع (أخذ مكلف) ولو أنثى أو عبدا أو كافرا أو مجنونا حال إفاقته (ناطق بصير) فلا يقطع أخرس لاحتمال نطقه بشبهة، ولا أعمى لجهله بمال غيره (عشرة دراهم) لم يقل مضروبة لما في المغرب: الدراهم اسم للمضروبة (جيادا أو مقدارها) فلا قطع بنقرة وزنها عشرة لا تساوي عشرة مضروبة ولا بدينار قيمته دون عشرة. وتعتبر القيمة وقت السرقة ووقت القطع ومكانه بتقويم عدلين لهما معرفة بالقيمة، ولا قطع عند اختلاف المقومين ظهيرية (مقصودة) بالأخذ، فلا قطع بثوب قيمته دون عشرة وفيه دينار أو دراهم مصرورة إلا إذا كان وعاء لها عادة تجنيس (ظاهرة الإخراج) فلو ابتلع دينارا في الحرز وخرج لم يقطع، ولا ينتظر تغوطه بل يضمن مثله لأنه استهلكه وهو سبب الضمان للحال (خفية) ابتداء وانتهاء لو الأخذ نهارا، ومنه ما بين العشاءين، وابتداء فقط لو ليلا، وهل العبرة لزعم السارق أو لزعم أحدهما؟ خلاف (من صاحب يد صحيحة) فلا يقطع السارق من السارق فتح (مما لا يتسارع إليه الفساد) كلحم وفواكه مجتبى، ولا بد من كون المسروق متقوما مطلقا، فلا قطع بسرقة خمر مسلم مسلما كان السارق أو ذميا، وكذا الذمي إذا سرق من ذمي خمرا أو خنزيرا أو ميتة لا يقطع لعدم تقومها عندنا ذكره الباقاني (في دار العدل) فلا يقطع بسرقة في دار حرب أو بغي بدائع (من حرز) بمرة واحدة اتحد مالكه أم تعدد (لا شبهة ولا تأويل فيه)."

(كتاب السرقة، ٤/ ٨٢، ط: سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"قال جمهور العلماء: مكان القطع في اليد هو من الكوع أو مفصل الزند (الرسغ)، لما روي أنه عليه السلام قطع يد السارق من مفصل الزند."

(القسم الخامس، الباب الأول: الحدود الشريعة، الفصل الثالث: حد السرقة، ٧/ ٥٤٢٩، ط: دارالفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم السرقة فنقول - وبالله التوفيق -: للسرقة حكمان: أحدهما: يتعلق بالنفس، والآخر: يتعلق بالمال (أما) الذي يتعلق بالنفس فالقطع لقوله سبحانه وتعالى {والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما}؛ ولما روينا من الأخبار، وعليه إجماع الأمة ...والثاني وجوب رد عين المسروق على صاحبه إذا كان قائما بعينه وجملة الكلام فيه: أن المسروق في يد السارق لا يخلو إما أن كان على حاله لم يتغير، وإما أن أحدث السارق فيه حدثا، فإن كان على حاله رده على المالك ... وإن أحدث السارق فيه حدثا لا يخلو إما أن أحدث حدثا أوجب النقصان، وإما إن أحدث حدثا أوجب الزيادة، فإن أحدث حدثا أوجب النقصان يقطع، وتسترد العين على المالك، وليس عليه ضمان النقصان ... وإن أحدث حدثا أوجب الزيادة فالأصل في هذا أن السارق إذا أحدث في المسروق حدثا لو أحدثه الغاصب في المغصوب لا يقطع حق المالك، ينقطع حق المسروق منه، وإلا فلا، إلا أن في باب الغصب يضمن الغاصب للمالك مثل المغصوب، أو قيمته، وههنا لا يضمن السارق لمانع وهو القطع."

(كتاب السرقة، فصل في حكم السرقة، ٧/ ٨٤-٨٩، ط: دارالكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(ولا يجتمع قطع وضمان وترد العين لو قائما) معناه إذا قطع السارق وكانت السرقة قائمة في يده ترد على صاحبها لقيام ملكه فيها وإن كانت هالكة لا يضمن السارق وإن استهلكها فكذلك في رواية أبي يوسف عن أبي حنيفة - رحمه الله - وهو المشهور وفي رواية الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله - يضمن وعن ابن سماعة عن محمد أنه يفتي بأداء القيمة لأنه أتلف مالا محظورا بغير حق ولا يحكم به لأنه يؤدي إلى إيجاب ما ينافي القطع."

(كتاب السرقة، فصل في كيفية القطع وإثباته، ٣/ ٢٣١، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں