بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ کا مال چوری کیا تو ورثاء کو لوٹانا واجب ہے


سوال

بہو نے اپنی ساس کے پیسے چوری چھپے نکالے تھے، اب بہو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے ، اب ساس زندہ نہیں ہے،  اب کیا کرے؟ پیسے کس کو دے ؟ ساس کی طرف سے صدقہ کرے یا پھر ان کے ورثاء  کو دے؟  اور یہ بھی یاد نہیں ہے ،کتنے پیسے نکالے تھے؟ اب کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے  کہ چوری کرنا اور ناحق کسی کا مال کھانا ، اس کی دلی رضامندی کے بغیرلینا، استعمال کرنا ،  حرام اور  ناجائز ہے،  لہذا  چوری کا مال کھانا جائز نہیں ہے ، بہو کو چاہیے کہ اپنی  اس حرکت پر توبہ واستغفار کرے،ا ور چوری کے ذریعہ حاصل کردہ رقم مرحومہ کے ورثاء کو واپس کردے   ۔

باقی اگر تعیین نہیں ہورہی کہ چوری شدہ رقم کتنی  تھی ، تو پوری سوچ  و بیچار کرکے  جتنے رقم  کے بارے میں غالب گمان ہو جائے اس کی ادائیگی لازم ہوگی۔

حدیث پاک میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أتدرون ‌ما ‌المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له، ولا متاع فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار ."

(صحيح مسلم ،كتاب البرو الصلة و الآداب ،باب تحريم الظلم، ج: 8، ص: 18،رقم الحديث: 2581، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھاکہ تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد  دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(و عن أبي حرة) بضم الحاء المهملة وتشديد الراء (الرقاشي) بفتح الراء وتخفيف القاف (عن عمه) لم يذكره المؤلف لكن جهالة الصحابي لا تضر في الرواية (قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا") بالتخفيف للتنبيه ("لاتظلموا") أي: لايظلم بعضكم بعضًا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لاتظلموا أنفسكم، و هو يشمل الظلم القاصر والمعتدي ("ألا") للتنبيه أيضًا و كرره تنبيهًا على أن كلًّا من الجملتين حكم مستقلّ ينبغي أن ينبه عليه، و أن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحقّ بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ") أي: مسلم أو ذمي ("إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى".

( کتاب البیوع باب الغصب و العاریۃ  ج: 5، ص: 1974،  ط : دار الفکر بیروت )

بذل المجہود میں ہے ۔

" صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء."

(کتاب الطهارۃ، باب فرض الوضوء، ج:1، ص:359،  ط : مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي للبحوث  و الدراسات الإسلامیة الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100862

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں