بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی بجلی اور گیس سے بنی اشیاء اور نماز کاحکم


سوال

میں خود ایک سٹوڈنٹ ہوں پڑھ رہا ہوں اور گھر میں رہتا ہوں تو جو بجلی اور گیس ہے دونوں چوری کی ہیں  اس سے کھاتے بھی ہے نماز بھی پڑھتے ہیں ،اور  اس حوالے سے  گھر والے بات  بھی  نہیں مانتے ہیں ، میں کیا کروں۔

جواب

واضح رہے کہ بجلی ،گیس وغیرہ حکومتی املاک ہیں جو عوام کا اجتماعی حق ہے، جس کی چوری کرنا شرعاً بڑاجرم ہے، کسی مسلمان کا  اس طرح  کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں چوری کی بجلی چوری کی گیس سے پکی ہوئی چیز یں کراہت سےخالی نہیں ،تاہم اگر کوئی اوروجہ نہ ہو،تو چوری کی  بجلی اور چوری  کی گیس کی وجہ سےیہ  اشیاء  حرام نہیں کہلائیں گی ، اور اسی طرح نماز بھی ہو جائے گی،باقی اس کا بل ادا کرنا لازم ہو گا ورنہ آخرت میں سخت سزا ہو گی، اور آپ جب تک اپنا انتظام الگ کرنے کے قابل نہیں ہوتے تب تک مجبوراً اس گھر میں رہے اور توبہ و استغفار کرتے رہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يجوز حمل تراب ربض المصر لأنه حصن فكان حق العامة فإن انهدم الربض ولا يحتاج إليه جاز كذا في الوجيز للكردري."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الثلاثون فی المتفرقات،ج:5،ص:373،ط:المطبعۃ الکبری الامیریہ)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال:(اول)قصبہ ہٰذا کی مسجد میں ۔۔۔دوم:پزاوہ گرکباڑہ کا ٹھیکہ زمیندار سے لیتے ہیں کہ دس بیس روپے دیتے ہیں ،کہ چھ ماہ یابرس روز تک کباڑہ ہمارارہا،اور وہ کباڑہ زمیندارکی رعیت کے مکانوں کاجورعیت کاشتکارنہیں ہے،پزاوہ گروں کے یہاں جاتاہے،ایسے کباڑسے پزاوہ پکارکراینٹیں فروخت کرنادرست ہے یاکیا؟۔۔۔ایسے پزاوہ گرکی کمائی درست ہے یاکیا؟

جواب:یہ سب صورتیں ناجائز ہے مگر ان سے پانی اور اینٹ میں کوئی حرمت نہیں آتی۔۔۔ملخصاً۔"

(مالِ حرام ومشتبہ کے احکام،ج:4،ص:147،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں