بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی بجلی استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرا بھائی اپنے گھر میں کنڈا لگاکر بجلی چوری کرکے استعمال کرتا ہے، میرے والد مرحوم اس بارے میں سخت ناراض تھے اور اس سے منع کرتے تھے، دیگر بھائی بھی اس کام سے منع کرتے ہیں لیکن وہ نہ صرف ان کی بات نہیں مانتا بلکہ لڑائی جھگڑا بھی کرتا ہے، وہ چونکہ الیکٹرک کا کام جانتا ہے اس لئے اس نے اپنے حساب سے یہ کام کیا ہوا ہے اور اپنی ہی نہیں بلکہ برابر کے پڑوسیوں کو بھی چوری کرکے دیتا ہے، ہم ساتھ رہتے ہیں تو اس بجلی کا استعمال مشترک ہورہا ہے، اس چوری کی بجلی سے پانی کی موٹر اور بجلی کے دیگر آلات بھی چلتے ہیں۔  چوری کی بجلی سے آیا ہوا پانی جس سے وضو اور غسل بھی ہوتا  ہےتو کیا ایسی نماز، روزہ اور دیگر عبادات اللہ کے حضور مقبول ہوں گی یا نہیں؟ 

جواب

 چوری کی بجلی استعمال کرنا شرعًا  جائز نہیں ہے ، یہ بڑا گناہ ہے، اس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور جتنی بجلی چوری کرکے استعمال کی گئی ہے،  اُسے استعمال کی گئی بجلی کے بقدر رقم کی ادائیگی کرناضروری اور لازم ہے، یہ پوری قوم کی املاک کی چوری ہے جس کی معافی تلافی مشکل ہے،لہذا اس اعتبار سے یہ دیگر تمام چوری سے زیادہ خطرناک ہے،تاہم  ایسے پانی سے وضو اور غسل کرکے  کی گئی  عبادت کی نفسِ ادائیگی  ہوجائے گی  اور اگر فرائض ادا کیے گئے  ہیں یعنی نمازیں پڑھی گئی ہیں تو وہ فرائض بھی ذمے  سے ساقط ہوجائیں گے، باقی  عبادات  کے قبول ہونے  اور نہ ہونے کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

 امداد الفتاویٰ (۴/۱۴۷)  میں ہے:

"مسجد میں چوری کی بجلی کا استعمال بالکل ناجائز ہے؛ تاہم اُس کی روشنی اور پنکھے کی ہوا سے نماز میں خرابی نہیں آتی۔"

'' لایجوز التصرف في مال غیره بلا إذنه ولا ولایته ''۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار، الغصب ، فیما یجوز من التصرف بمال الغیر بدون إذن صریح ، زکریا ۹/۲۹۱، کراچی ۶/۲۰۰،)

قال الحافظ عماد الدین إسماعیل بن کثیر القرشي: قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: أمرہم بالإنفاق من أطیب المال وأجودہ وأنفَسہ، ونہاہم عن التصدق برذالۃ المال أو دنیئتہ، وہو خبیثہ؛ فإن اللّٰہ لا یقبل إلا طیبًا۔

(تفسیر ابن کثیر ۱؍۳۲۰ البقرۃ: ۲۶۷ سہیل أکیڈمي لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں