میں جہاں کام کرتا ہوں، صبح 7 بجے سے رات 1 بجے تک ڈیوٹی کرتا ہوں، لیکن میری تنخواہ کم ہے، صرف 24 ہزار روپے۔ وہ میری تنخواہ نہیں بڑھاتے، اس دوران کبھی کبھار ان کے لیے سودا لے کر آتا ہوں، اور اس میں سے اگر 100 یا 200 روپے چوری کر لیتا ہوں، جب کہ میرے پاس اپنی حلال کمائی کی تنخواہ کے پیسے بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگر میں وہ چوری شدہ پیسے اپنی حلال کمائی میں شامل کر دوں تو کیا ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سودا سلف کی خریداری سے بچنے والی رقم سائل کے لیے اپنے استعمال میں لانا ناجائز ہے، اللہ رب العزت نے ناحق طریقے سے دوسرے کا مال ہتھیانے سے منع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ" (سورۃ المائدة :29)
ترجمہ: اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں ۔(بیان القرآن)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن أبى حرة الرقاشى، عن عمه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه.
(مسند أبي یعلی، ج:3، ص:70، رقم الحدیث:1570، ط:دار الحديث - القاهرة)
ترجمہ:حضرت ابو حرة رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"کسی مسلمان کے مال کو اس کی دلی خوشنودی کے بغیر لینا جائز نہیں ہے۔"
لہذا سائل پر مذکورہ تمام رقم اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہوگی، رہی بات زکوۃ کی تو سائل کی حلال رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زائد ہو ،تو ایک سال گزرنے پر اس کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا ،حرام رقم اصل مالک کو واپس کرنا شرعا ضروری ہے ،اس پر زکوۃ واجب نہیں ۔
الدر المختار مع الرد میں ہے:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) ... (نام ولو تقديرا)."
(کتاب الزکاۃ، مدخل، ج:2، ص:259، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
(نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة) دراهم (وزن سبعة مثاقيل) ... (أو) في (عرض تجارة قيمته نصاب) ... (من ذهب أو ورق) ... (مقوما بأحدهما) إن استويا، فلو أحدهما أروج تعين التقويم به؛ ولو بلغ بأحدهما نصابا دون الآخر تعين ما يبلغ به، ولو بلغ بأحدهما نصابا وخمسا وبالآخر أقل قومه بالأنفع للفقير سراج (ربع عشر) خبر قوله اللازم."
(کتاب الزکاۃ، باب زکوۃ المال، ج:2، ص:295، ط: سعید)
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:
"ولو تصدق على فقير شيئا من المال الحرام يرجو الثواب يكفر ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمن المعطي كفرا."
(کتاب السیر، باب المرتد، ج:1، ص:697، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت)
و فی الدر المختار مع الرد:
"إنما يكفر إذا تصدق بالحرام القطعي، أما إذا أخذ من إنسان مائة ومن آخر مائة وخلطهما ثم تصدق لا يكفر لأنه ليس بحرام بعينه بالقطع لاستهلاكه بالخلط."
(کتاب الزکاۃ، باب زكاة الغنم، ج:2، ص:292، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144609101101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن