بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کے ڈیزل کی خرید وفروخت


سوال

کیا چوری شدہ ڈیزل خریدنا جائز ہے؟  جب کہ موجوہ قیمت بہت زیادہ اور پہنچ سے باہر ہو  اور یہ کوئی تیسری پارٹی سے خریدا جائے جس کا نفع کم ہو؟ ہمارے ہاں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے جہاں پر ٹریکٹر ٹرالی اور ڈرائیور تینوں کو کام  کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے، جس کی ماہانہ  تنخواہ 40 ہزار دی جاتی ہے اور ڈیزل کمپنی کا 15 لیٹر یومیہ اور کام اتنا زیادہ نہیں دیتے،  اب چوتھے دن ٹینک فل ہو جاتا ہے،  اب اگر اس میں سے تیل نہ نکالیں تو کمپنی والے کہتے ہیں تم کام نہیں کر تے ، اس صورتِ حال میں تقریباً سبھی تیل نکال لیتے ہیں،  ایسا تیل وہ باہر بازار میں کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں یا اس  کا خود استعمال کرتے ہیں ۔ایسی صورت میں یہی تیل بیچنا کیسا ہے؟ اور خود استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

کمپنی کی اجازت کے بغیر  ٹریکٹر وغیرہ سے ڈیزل نکال کر خود استعمال کرنا یا اسے بازار میں فروخت کرنا  اور لوگوں کے لیے جان بوجھ کر خریدناشرعا جائز نہیں ہے،ٹریکٹر وغیرہ سے تیل نکالنا کمپنی کے مال کی  چوری ہے اورکسی کامال چوری کرنا کسی حال میں  بھی جائز نہیں ہے،اور  چوری کامال جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ حرام ہی رہتا ہے اوراصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا۔

باقی اگر تیل باقی رہنے سے کمپنی والے یہ سمجھتے ہیں کہ مزدور کام نہیں کرتے تو ان کمپنی  کے مالکان  کو حقیقت حال سے آگاہی دے دی جائے کہ کام زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے تیل بچ جاتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌اشترى ‌سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد شرك في عارها وإثمها."

(مسند اسحاق بن راھویہ،‌‌باب :ما يروى عن عطاء بن أبي مسلم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ،ج1،ص385،ط؛مکتبۃ الایمان)

مجموع الفتاوی میں ہے:

"فمن علمت ‌أنه ‌سرق مالا أو خانه في أمانته أو غصبه فأخذه من المغصوب قهرا بغير حق لم يجز لي أن آخذه منه؛ لا بطريق الهبة ولا بطريق المعاوضة ولا وفاء عن أجرة ولا ثمن مبيع ولا وفاء عن قرض فإن هذا عين مال ذلك المظلوم."

(اصول فی التحریم والتحلیل،ج29،ص323،ط؛مجمع الملک فھد،السعودیہ)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"إن علم أن العين التي يغلب علي الظن أنهم أخذوها من الغير بالظلم قائمة و باعوها في الأسواق فإنه لاينبغي شرائها منهم و إن تداولته الأيدي."

( کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج4،ص192،ط؛دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں