بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال خریدنا


سوال

 اگر کوئی یہ جانتے ہوئے کہ میں جس شخص سے  خریداری کر رہا ہوں اس کا مال چوری شدہ مال ہے یا پھر اس کو اس بات کا صحیح  اندازہ نہ ہو مگر جو چیز خریدی جارہی ہو وہ یا تو آسانی سے لینا ممکن نہ ہو یاپھر اس نرخوں میں ان کی دستیابی آسانی سے ممکن نہ ہو دوسری صورت میں امکان غالب چوری کا مال ہونے کا ہے یا شک ہے ان صورتوں میں  اسے اس  شخص کے ساتھ کاروباری لین دین رکھنا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

صورت  مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے یا قرائن سے  غالب گمان یہ ہے کہ یہ  مال چوری کا ہے تو شرعاً ایسا مال خریدنا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاملات رکھنا بھی شرعا جائز نہیں۔اور اگر صرف معمولی  شک ہے تب بھی ایسے مال کے خریدنے سے اجتناب بہتر ہے  ،اگرچہ خرید نے کی گنجائش بھی ہے ۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌من ‌اشترى ‌سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد شرك في عارها وإثمها."

(مسند اسحاق بن راھویہ،‌‌باب :ما يروى عن عطاء بن أبي مسلم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ،ج۱،ص۳۸۵،ط؛مکتبۃ الایمان)

مجموع الفتاوی میں ہے:

"فمن علمت ‌أنه ‌سرق مالا أو خانه في أمانته أو غصبه فأخذه من المغصوب قهرا بغير حق لم يجز لي أن آخذه منه؛ لا بطريق الهبة ولا بطريق المعاوضة ولا وفاء عن أجرة ولا ثمن مبيع ولا وفاء عن قرض فإن هذا عين مال ذلك المظلوم."

(اصول فی التحریم والتحلیل،ج۲۹،ص۳۲۳،ط؛مجمع الملک فھد،السعودیہ)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"ان علم ان العين التي يغلب علي الظن انهم اخذوها من الغير بالظلم قائمة و باعوها في الاسواق فانه لاينبغي شرائها منهم وان تداولته الايدي."

( کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۴،ص۱۹۲،ط؛دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں