بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال خریدنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص چوری کا مال کسی دکان دار کو یا کسی شخص کو بیچتا ہے، اسے معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے، وہ کچھ قیمت سے اسے خرید کر زیادہ رقم میں بیچ دیتا ہے ۔ اگر خریدنے والے کو معلوم ہو کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟ اور اگر خریدنے والے کو معلوم نہ ہو کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا  کیا حکم ہے؟

جواب

صورت  مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے تو شرعاً ایسا مال خریدنا شرعاً جائز نہیں ہے۔اوراگر  خریدنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ مال چوری کا ہے تو یہ سودا ختم کرے مسروقہ چیز واپس کرکے اپنی رقم واپس لے لے، اور اگر بیچنے والے سے بھی رابطہ ممکن نہ ہو اور اصل مالک کا بھی علم نہیں ہے تو وہ چیز یا اس کی مالیت مالک کی طرف سے صدقہ کرے۔

حدیث میں ہے:

" عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

(السنن الکبرٰی للبیہقی،کتاب البیوع،باب کراہیۃ مبایعۃ من اکثر مالہ من الربا،ج:5،ص:548،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله الحرمة تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ"

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ،ج:5،ص:98،سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال:مسروقہ شیئ مثلاً:جانور،کپڑا،جوتا وغیرہ کو دانستہ یا غیر دانستہ  خریدنااور اس کو استعمال کرنا کیسا ہے ؟

الجواب حامدا ومصلیا:

معلوم ہونے پر کہ یہ چوری کی چیز ہے  ،اس کا خریدنا درست نہیں ،اس سے اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوں گی ۔"

(باب المال الحرام ومصرفہ،ج:24،ص:215،فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں