بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال بچانے کے لیے جھوٹی قسم کھانا


سوال

 اگر ایک بندہ چوری کا مال یا پیسے بچانے کےلیے اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھاتا ہے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کا مال اس کی رضامندی کے بغیر کھانا ناجائز اور حرام ہے لہذا کسی کا مال چوری کرنا جائز نہیں ہے مالک کو لوٹانا لازمی ہے اور اگر چوری کے مال کو بچانے کے لیے جھوٹی قسم کھا لی ہےتو اس پر کفارہ لازم نہیں ہے،البتہ توبہ و استغفار لازم ہے اس لیے کہ   جھوٹی  قسم کھانا کبیرہ  گناہوں  میں  سے  شدید  ترین  گناہ  ہے،  جھوٹی  قسم  کا  مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت والقدرۃ  کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے، اگر کسی نے  نادانی میں  جھوٹی قسم کھالی تو  اس طرح کی قسم پر کفارہ تو نہیں ہے، البتہ سچی توبہ واستغفار لازم ہے،تاکہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب و ناراضی  سے بچ جائے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»."

(کتاب البیوع ، باب الغصب و العاریة جلد 2 ص: 889 ط: المکتب الإسلامي)

وفیہ ایضاً:

"وعن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس واليمين الغموس»." 

(کتاب الإیمان ، باب الکبائر و علامات النفاق جلد 1 ص: 22 ط: المکتب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504100969

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں