بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا دودھ خریدنا


سوال

اگر کسی سے آپ دودھ پیسوں کا لے رہے ہیں، لیکن وہ آپ کو چوری کر کے بیچ رہا ہے، کیا اس کا استعمال جائز ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں چوری کا دودھ فروخت کرنے والا شخص چوں کہ اس کا مالک نہیں ہے؛ لہذا معلوم ہونے کے باوجود اس  سے دودھ خریدنا اور اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔

السنن الکبری للبيهقي میں ہے:

"عن شرحبيل مولى الأنصار، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

( کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ٥ / ٥٤٨، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَبَيْعُ مَا لَيْسَ فِي مِلْكِهِ) لِبُطْلَانِ بَيْعِ الْمَعْدُومِ وَمَا لَهُ خَطَرُ الْعَدَمِ.... (وَ) الْبَيْعُ الْبَاطِلُ (حُكْمُهُ عَدَمُ مِلْكِ الْمُشْتَرِي إيَّاهُ)".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَبَيْعُ مَا لَيْسَ فِي مِلْكِهِ) فِيهِ أَنَّهُ يَشْمَلُ بَيْعَ مِلْكِ الْغَيْرِ لِوَكَالَةٍ أَوْ بِدُونِهَا مَعَ أَنَّ الْأَوَّلَ صَحِيحٌ نَافِذٌ وَالثَّانِي صَحِيحٌ مَوْقُوفٌ. وَقَدْ يُجَابُ بِأَنَّ الْمُرَادَ بَيْعُ مَا سَيَمْلِكُهُ قَبْلَ مِلْكِهِ لَهُ ثُمَّ رَأَيْته كَذَلِكَ فِي الْفَتْحِ فِي أَوَّلِ فَصْلِ بَيْعِ الْفُضُولِيِّ، وَذَكَرَ أَنَّ سَبَبَ النَّهْيِ فِي الْحَدِيثِ ذَلِكَ (قَوْلُهُ: لِبُطْلَانِ بَيْعِ الْمَعْدُومِ) إذْ مِنْ شَرْطِ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا مَالًا مُتَقَوِّمًا مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ، وَأَنْ يَكُونَ مِلْكَ الْبَائِعِ فِيمَا بِبَيْعِهِ لِنَفْسِهِ، وَأَنْ يَكُونَ مَقْدُورَ التَّسْلِيمِ، مِنَحٌ".

( كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ٥ / ٥٨ - ٥٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں