بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا بدل ادا کرنے کے لیے چور کو زکات دینے کا حکم


سوال

 ایک  دوکاندار  کے  پاس ملازم یتیم لڑکے نے چوری کی اور دوکاندار نے اردگرد کے افراد سے زکات کی رقم اکھٹی کی اور اس لڑکے کو کہا کہ یہ تمہارے چوری  شدہ مال کا ہرجانہ ہے، اس معاملے میں چند جوابات درکار ہیں:

 کیا ایسا کرنا درست ہے ؟  کیا جن لوگوں نے زکات کا مال دیا ان کی طرف سے زکات ادا ہوئی یا نہیں؟ مالِ زکات اکھٹا کرنے والے کا موقف ہے کہ یہ لڑکا غریب اور یتیم ہے، اس لیے اور کوئی راہ نہیں تھی  مالِ مسروقہ کے ہرجانے کی۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر چوری کرنے والے لڑکے نے چوری کا مال خرچ کر کے ختم کردیا تھا اور اس کے پاس  ان لوگوں کو  دینے کے  لیے کچھ نہیں تھا  جن کے ہاں چوری کی ہے  اور  مستحقِ  زکات  ہونے  کی وجہ سے  (یعنی اس کے پاس ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہیں تھا جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے اور وہ سید/ عباسی بھی نہ ہو، تو) لوگوں نے اپنی زکات کی رقم اس لڑکے کو  مالک بناکر دے دی؛ تاکہ وہ لڑکا اس رقم کے ذریعہ سے چوری کردہ مال کا بدلہ ادا کرسکے تو زکات کی رقم دینے والوں کی زکات ادا ہوگئی ، اگر چوری کرنے والا لڑکا اپنی چوری پر نادم اور پشیمان تھا تو اس کی مدد کرنے کے  لیے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں