بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کے دوران قتل ہونے والے چور کے نماز جنازہ کا حکم


سوال

چوری کے دوران قتل ہونے والے چور کا جنازہ اسلام میں جائز ہے، یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نماز جنازہ تو پڑھی جائےگی،البتہ علماء اور صلحاء اور متقی پر ہیز گار نماز نہ پڑھیں۔

سنن کبری للبیھقی میں ہے:

"عن أبى هريرة، أن رسول الله -صلي الله عليه وسلم- قال: "صلوا خلف كل بر وفاجر، وصلوا ‌على ‌كل ‌بر وفاجر، وجاهدوا مع كل بر وفاجر". قال علي: مكحول لم يسمع من أبى هريرة، ومن دونه ثقات. قال الشيخ: قد روى في الصلاة ‌على ‌كل ‌بر وفاجر والصلاة على من قال: لا إله إلا الله."

(‌‌‌‌كتاب الجنائز، باب الصلاة على من قتل نفسه غير مستحل لقتلها، ج:7، ص:325، ط: هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية)

شرح بلوغ المرام لعطية سالم میں ہے:

"وقد جاء في الأثر: (صلوا خلف كل بر وفاجر، وصلوا ‌على ‌كل ‌بر وفاجر) ، فإذا مات فاجر أنقول هذا فاجر لا نصلي عليه ولا نجهزه؟ بل نجهزه ونصلي عليه؛ لأنه له حقا علينا في ذلك."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، الصلاة خلف السلطان الفاجر ومن نصبه إماما وهو فاجر، ص:88، ط: الشبكة الإسلامية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان من ‌يصلى ‌عليه فكل مسلم مات بعد الولادة ‌يصلى ‌عليه صغيرا كان، أو كبيرا، ذكرا كان، أو أنثى، حرا كان، أو عبدا إلا البغاة وقطاع الطريق، ومن بمثل حالهم لقول النبي: - صلى الله عليه وسلم - «صلوا على كل بر وفاجر» وقوله: «للمسلم على المسلم ست حقوق» وذكر من جملتها أن يصلى على جنازته من غير فصل إلا ما خص بدليل، والبغاة ومن بمثل حالهم مخصوصون لما ذكرنا."

(كتاب الصلاة، فصل بيان فريضة صلاة الجنازة وكيفية فرضيتها، ج:1، ص:311، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا يصلى عليهم (‌إذا ‌قتلوا ‌في ‌الحرب) ولو بعده صلى عليهم..."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:211، ط:سعید)

فتاوی فریدیہ میں ہے:

"سوال:ایک شخص اجرتی قاتل،چور،ڈاکو،راہزن،مفرور ار باغی ہو اور پھر ڈاکہ یا چوری میں مارا گیا،کیا ایسے شخص کا جنازہ اور اس کو غسل دینا جائز ہے،یا نہیں؟

جواب:ایسے شخص پر چار یا پانچ آدمی جنازہ پڑھیں،آیمہ مساجد اور علماء پر یہ ضروری نہیں  ہے،کہ ایسے شخص پر جنازہ پڑھیں،کیوں کہ جنازہ فرض کفایہ ہے،اور یہ شخص قابل اکرام نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم"

(کتاب احکام الجنائز، باب صلوٰۃ الجنازۃ، ج:3، ص:253، ط:دارالعلوم صدیقیہ زروبی ضلع صوابی)

خیر الفتاوی میں ہے:

"سوال:زانی،چور اگر موقع پر  قتل ک دیئے گئےہوں،یا اپنے موت مر جائیں،تو اس صورت میں ان کا نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:مذکورہ لوگوں کے نماز جنازہ پڑھی جائے گی،اور ان کو غُسل بھی دیا جائے گا،البتہ مقتدا اور بڑے علماء حضرات برائے حصولِ عبرت نماز جنازہ میں  شرکت نہ کریں۔فقط واللہ اعلم"

(باب الجنائز، ج:3، ص:264، ط: مکتبہ امدادیہ ملتان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں