بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’چھوڑا ہوا ہے، چھوڑ دیا‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

میری شادی کو گیارہ سال ہوگئے ہیں، میرے تین بچے ہیں، کچھ ماہ پہلے میری بیوی سے لڑائی ہوئی، اس کی امی کی فوتگی کی وجہ سے وہ پریشان تھی، میں اس وقت بیرون ملک میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوں، فوتگی کے بعد میری بیوی ہر بار پاکستان جانے کی ضد کرتی، کچھ دوسری چھوٹی موٹی باتوں کی وجہ سے لڑائی ہوتی تھی، ایک دن بات تھپیڑ تک آں پہنچی، میں نے اس کو تھپیڑ مارا، اور گالیاں بھی دیں، جس کی وجہ سے غصہ ہوکر اس نے مجھے قسمیں دینی شروع کیں کہ میری جان چھوڑو، اس وقت میں نے جان چھڑانے کے لیے کہا کہ ’’اپنے ابو سے بولو ٹکٹ کرادیں، پھر چلی جانا‘‘، اور کہا ’’جاؤ میں نے کب روکا ہے‘‘، کچھ دن بعد پھر لڑائی ہوئی جس میں میری بیوی نے طلاق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے چھوڑ دو‘‘، لیکن طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا، میں نے پھر اس کو کہا ’’چھوڑا ہوا ہے، چھوڑ دیا، جان چھوڑو جاؤ‘‘،  جب بھی وہ یہ مطالبہ کرتی میں یہی الفاظ استعمال کرتا، تین یا چار دفعہ میں نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں، اللہ گواہ ہے کہ مجھے ایسے الفاظ سے طلاق واقع ہونے کا بالکل علم نہیں تھا، اور نہ ہی میری طلاق دینے کی نیت تھی،بعد میں میں نے کچھ ویڈیوز دیکھیں، جن میں کچھ علماء اس کو طلاقِ رجعی قرار دیتے ہیں، اور کچھ کہتے ہیں کہ اس میں نیت معلوم کی جاتی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اور لاعلمی میں مجھ سے جو غلطی ہوئی اس کا کیا کفارہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ بالا تمام الفاظ بولتے وقت سائل کی نیت  طلاق دینے کی نہیں تھی تو جب انہوں نے پہلی دفعہ کہا تھا کہ ’’اپنے ابو سے بولو ٹکٹ کرادیں، پھر چلی جانا، جاؤ میں نے کب روکا ہے‘‘  اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی،اور دوسری دفعہ لڑائی کرتے وقت جب کہا کہ  ’’چھوڑا ہوا ہے، چھوڑ دیا، جان چھوڑو جاؤ‘‘ تو بقولِ سائل کے بیوی کے مطالبۂ طلاق پر اس نے تین، چار دفعہ یہ الفاظ بولے ہیں، اس لیے یہ الفاظ بولنے سے ان کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، خواہ ان کی نیت طلاق دینے کی ہو یا نہ ہو،  اس پر بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، الا یہ کہ مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ پیدا ہونے تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرے، پھر وہ دوسرا شوہر ان کو طلاق دے یا ان کا انتقال ہوجائے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزارنے کے بعد مطلقہ آزاد ہوگی خواہ سائل سے نکاح کرے، خواہ کسی دوسری جگہ نکاح کرے۔

باقی  بلا وجہ طلاق دینا شرعاً جائز نہیں ہے، لیکن چوں کہ سائل سے  غیر ارادی طور پر غلطی سے  یہ فعل سر زد ہوا ہے، تو ان شاء اللہ عند اللہ ماخوذ نہیں ہوگا، تاہم اس کو چاہیے کہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار بھی کر لے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فإذا قال ’’ ‌رهاكردم ‘‘ أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:299، ط:سعيد)

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية ... سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فیما تحل به المطلقة و ما یتصل به، ج:1، ص:473، ط:بولاق مصر)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله تعالى الطلاق»."

(كتاب الطلاق، باب في كراهية الطلاق، ج:2، ص:255، رقم:2178، ط:المكتبة العصرية)

مشکاۃ المصابیح میں ہےـ:

"عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله تجاوز ‌عن ‌أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه» . رواه ابن ماجه والبيهقي."

(كتاب المناقب، باب ثواب هذه، الفصل الثالث، ج:3، ص:1771، رقم:6293، ط:المكتب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں