بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھوڑ رہا ہوں سے طلاق کاحکم


سوال

میں نے 7 مئی2022ء کو  اپنی بیوی کے سامنے اپنے سسر کویہ الفاظ کہےکہ:"آپ اِسے لے جائیں ،میں اِسے چھوڑ رہاہوں،عزت سے رخصت کررہاہوں ،باقی پیپر میں بعد میں  بھیجوادوں گا، حقِ مہر  میں نے اُسے دے دیا ہے"اور ان الفاظ سے میری نیت محض ڈراناتھا،طلاق دینے کی نیت نہیں تھی،پھر 22 مئی 2022ء کومیں نےاپنی بھابھی کوغصے  کی حالت میں میسج کیا کہ :"اب میں پیچھے نہیں ہوں گااپنے فیصلے سے،کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیاہے،چھوڑ دیااس کو "اور یہ میسج کرتے وقت میری کوئی نیت نہیں تھی ،پھر 29 مئی 2022ء کو میں نے اپنی بیوی کو میسج کیا (نیت ڈرانے کی تھی ) کہ :"آپ کے پاس سات دن  ہیں ، سوچ کر بتاؤ، ورنہ بہت جلد آپ میر ی طرف سے آزاد ہوجاؤگی "، پھر 4جون 2022 ء کو میں نے اپنی بھابھی کو میسج کیاکہ :"sunday کو جاکر ختم  کردو، اور آزاد کردو مجھے اس ٹینشن سے" ،یہ میسج میں نے غصے کی حالت میں کیاتھا اور کوئی نیت نہیں تھی  اور بھابھی نے بھی کچھ نہیں کیا،پھر13 جون کودوست کو(غصے کی حالت میں ) میسج کیا(اور نیت کوئی نہیں تھی) کہ :"وہ کہہ رہی کہ پہلے جاب کرنے کی اجازت دو، یاگھر الگ کرو، پھر آئیں گی ،چھوڑدیا بس "،پھر 18 جولائی 2022ء کو  میں نے اپنے بھائی کومیسج کیاکہ:"میں اس کو (اپنی بیوی کو)طلاق دے  رہاہوں ، ماموں کوبول دو"اور نیت ایک طلاق دینے کی تھی ، اس کے دس منٹ بعد میں نے اپنی بیوی کویہ میسج کیاکہ :"خداحافظ ہمیشہ  کے لیے، آپ  کوحقِ  مہر دے دیا میں نے ،اب کوئی صلح نہیں ہوسکتی ، بس بہت ہوگیا"،پھر 27 جولائی 2022ء کو میں نے بیوی کومیسج کیاکہ :"اب آپ میری طرف سے آزاد ہو" اور ان الفاظ سے میری نیت اسی سابقہ طلاق کی خبر دیناتھی جومیں نے 18 جولائی 2022ء کو اپنے بھائی کو میسج کر کے بیوی کو دی تھی،کوئی نئی طلاق دینی مقصود نہیں تھی ، پھر 28 جولائی کوبیوی  کی کال مجھے آرہی تھی ،تو میں نے اس کومیسج کرکےکہاکہ :" آپ اپنے گھر کے بڑوں کوبولیں کہ وہ ہمارے گھر کے بڑوں سے رابطہ کریں، اب آپ میری نکاح  میں نہیں رہی "اور ان الفاظ سے بھی میری نیت اسی سابقہ طلاق کی خبر دیناتھی جومیں نے 18 جولائی 2022ء کو اپنے بھائی کو میسج کر کے بیوی کو دی تھی،کوئی نئی طلاق دینی مقصود نہیں تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ کتنی اور کون سی طلاق واقع ہوئی ہے،ہم میاں بیوی دونوں رجوع کرناچاہتے ہیں، توکیارجوع کاکوئی راستہ ہے؟

وضاحت:

7مئی 2022 کومیں نے بیوی کو جوالفاظ بولے تھے تو اس کے بعد 11مئی 2022 کو میں نے رجوع کرلیا تھا۔یعنی عدت کے اندر ہی میں نے رجوع کرلیاتھا۔

جواب

واضح رہے کہ "چھوڑرہا ہوں "طلاق کے صریح الفاظ میں سے ہیں جس سے طلاق کی نیت  کے بغیربھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب سائل نے اپنی   بیوی کے متعلق پہلے یہ الفاظ کہےکہ:"میں  اُسے ( اپنی بیوی کو) چھوڑ رہاہوں"،پھراپنی بھابھی کومیسج کرکے کہا کہ:"چھوڑدیا اس  کو" ، اور  پھر دوست کو میسج کرکے کہاکہ :" چھوڑدیا بس "، تو اِ ن الفاظ سے  مجموعی طور پر سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ،اور وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ، اب  نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح  ہوسکتاہے،البتہ  اگرسائل کی مطلقہ بیوی اپنی عدت ( تین ماہواریاں  اگر حاملہ  نہ ہو اوراگر حاملہ ہو توبچے کی پیدائش تک کاعرصہ )گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اوراس دوسرے شوہر سے صحبت(جسمانی تعلق قائم )ہوجائے،اس کےبعد وہ دوسراشوہر اُسے طلاق دے دے ، یااس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کرپہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔

وفیہ ایضًا:

"ولا شيء من الكناية يقع به الطلاق بلا نية أو دلالة الحال كما صرح به في البدائع، ويدل على ذلك ما ذكره البزازي عقب قوله في الجواب المار إن المتعارف به إيقاع البائن لا الرجعي، حيث قال ما نصه: بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، 3 /299، ط: سعید)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"لفظ" ہم نےاس کوچھوڑدیا" یہاں کے عرف میں بمنزلۂ صریح کے ہے، اس سے بلانیت بھی ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجاتی ہے،خواہ مذاق ہی میں کیوں نہ کہے۔"

(کتاب الطلاق، باب الطلاق الصریح، 341/12، ط: ادارہ الفاروق)

فتاوٰی رحیمیہ میں ہے:

"لفظ "چھوڑدی" کثرتِ استعمال کی وجہ سے صریح کے حکم میں ہے، اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے۔"

(کتاب الطلاق، باب مایتعلق بالصریح،396/8، ط: دارالاشاعت)

امداد الفتاوٰی میں ہے:

"پہلی بار میں جب کہا"چھوڑدی" یہ طلاق صریح اور رجعی ہے۔۔۔۔الخ"

(کتاب الطلاق، 456/2، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به، ج: 1، ص: 473، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں