بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چور پکڑنے کے لیے من گھڑت طور طریقے کاحکم


سوال

ہمارے علاقے میں اگر کوئی چیز چوری ہو جائے تو دو لوگ لوہے کا لوٹا لے کر چاروں طرف چار بڑے فرشتوں کے نام لکھ دیتے ہیں اور جس بندے پر شک ہو اس کا نام لکھ کر لوٹے میں ڈال دیتے ہیں، اسکے بعد دو بندے لوٹے کو انگلیوں کے کناروں پر رکھ کر سورۃ یٰسین کی (من المکرمین تک ) تلاوت کرتے ہیں اور اگر لوٹا خود بخود گھومنے لگ پڑے تو اس شخص (جس کا نام لکھ کر اندر ڈالا تھا ) کو چور تصور کرتے ہیں آیا یہ طریقہ قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ چوری کے ثبوت کا طریقہ شرعی ثبوت ہے،اگر شرعی ثبوت نہ ہو تو کسی ایسے عمل کے ذریعےجو عمل قرآن حدیث  کے طریقہ کے مخالف ہو    کسی شخص کو چور کہنا اس پر چوری کی تہمت لگانا ہے ، اور کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا  آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

 لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بیان کردہ صورت کا قرآن وحدیث میں  کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں ہےیہ لوگو ں کا اپنا من گھڑت طریقہ ہے شریعت نے چور کو پکڑنے کےلیے جو طریقہ کار بتایا ہے وہ  یہ ضابطہ ہے کہ  مدعی ( دعوی کرنے والے ) کے ذمہ اپنے دعوی کو گواہی کے ذریعہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے، اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو  مدعی علیہ (جس پر دعوی کیا جائے اس)  پر قسم آئے گی ، اور اگر وہ قسم کھالے تو اس کی بات معتبر ہوگی، لہذ ا کسی شخص کو محض الزام لگاکر اس کے جرم کے ثابت ہوئے بغیر  سزا دینا شرعاً جائز نہیں ہے ۔

مسند احمد میں ہے:

"عن عرباض بن سارية، قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الفجر، ثم أقبل علينا، فوعظنا موعظة بليغة، ذرفت لها الأعين ، ووجلت منها القلوب، قلنا أو قالوا: يا رسول الله، كأن هذه موعظة مودع، فأوصنا. قال: " أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن كان عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم يرى بعدي اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وإن كل بدعة ضلالة."

(مسند الشامیین،حدیث العرباض بن ساریہ،ج:28،ص:373،الرقم:17144،ط:مؤسسۃالرسالۃ)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «‌لا ‌يرمي ‌رجل ‌رجلا بالفسوق، ولا يرميه بالكفر، إلا ارتدت عليه، إن لم يكن صاحبه كذلك»."

(کتاب الادب،باب ماینہی من السباب واللعان،ج:8،ص:15،الرقم:6045،ط:السلطانیہ مصر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402100526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں